شام کے شمال مغربی علاقے کے لاکھوں لوگوں کے لیے امدادی کارروائی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ ایک قرارداد کو روس اور چین نے ویٹو کر دیا ہے۔
اس قرارداد کو اقوام متحدہ کے لیے بیلجئم اور جرمنی کے سفیروں نے پیش کیا تھا۔
بیلجئم کے سفیر کا کہنا تھا کہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے گھنٹوں اور دنوں میں اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے تمام فریقوں کے پاس جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کونسل کی ایک اہم ذمہ داری ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہم شام کی ضرورت مند آبادی کے مفاد میں ایک اتحاد بنا سکیں گے۔
اس وقت سلامتی کونسل ہی کی ایک قرارداد کے تحت امدادی کارواں ترکی کے راستے شام کے شمال مغربی علاقے کو جاتے ہیں۔ تاہم، دس جولائی کو یہ قرارداد اپنی مدت پوری کر لے گی۔ اس لیے ممکن ہے کہ دس جولائی تک پندرہ رکنی سلامتی کونسل، امداد جاری رکھنے کے لیے کسی سمجھوتے تک پہنچ سکے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اپریل اور مئی کے دوران، ترکی کے راستے جانے والی اس کی امدادی کارروائیوں سے تقریباً تیرہ لاکھ شامیوں کو فائدہ پہنچا۔
امریکہ کے سیاسی رابطہ کار، روڈنی ہنٹر نے روس اور چین کی مجوزہ قرارداد ویٹو کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام سیاست کو شام کے عوام کی زندگیوں سے دور رکھنے کی ایک واہیات کوششش ہے۔
اس سال جنوری میں روس اور چین کے دباؤ میں آکر کونسل نے پوری امداد روکنے کے خدشے کے تحت امداد کے لئے کھلی چار میں سے دو گزرگاہوں کو بند کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک گزرگاہ طبی سامان کی ترسیل کیلئے تھی جو عراق سے شام کے شمال مغرب میں جاتی تھی اور دوسری شام اور اردن کے درمیان تھی، جسے اب استعمال نہیں کیا جاتا۔
کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا میں مدد کیلئے، اقوام متحدہ اور امدادی ادارے عراق سے شام جانے والی گزرگاہ کو کھلا رکھنا چاہتے تھے۔ تاہم، سفیروں نے اس پر اس لئے زور نہیں دیا کہ کہیں روس دیگر دو گزرگاہوں کو بھی نہ بند کر دے۔ تاہم، ان کی یہ حکمت عملی ناکام ہوئی۔ شام میں اس وقت کرونا وائرس کے تین سو بہتر مریض ہیں، جبکہ چودہ افراد اس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
کرونا وائرس کے علاوہ شام کو اس وقت ملک میں جاری نو سالہ خانہ جنگی کی وجہ سے بد ترین معاشی بد حالی کا سامنا ہے۔
روس کا موقف ہے کہ امدادی آپریش عارضی تھا اور اب جب وہاں حالات بہتر ہو چکے ہیں اب اس کی ضرورت نہیں۔ اقوام متحدہ کیلئے روس کے سفیر کا کہنا تھا کہ روس باب الہوا نامی گزرگاہ کو کھولنے پر تیار ہے۔ تاہم، کونسل کے دیگر اراکین کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔
چین اور روس کا سلامتی کونسل میں قریبی اشتراک ہے اور چین نے بھی مجوزہ قرارداد کو ویٹو کیا تھا۔ چین کے سفارتکاروں کا کہنا ہے انہوں نے شام پر پابندیان نرم کرنے کا معالہ اٹھایا ہے۔
ویٹو کے بعد چین کے سفیر نے کھل کر اس پر بات کی۔ چینی سفیر کا کہنا تھا کہ جب تک پابندیوں میں نرمی نہیں کی جاتی، تب تک ہم جو چاین کریں۔ ہم مسئلے کو پوری طرح سے حل کرنے میں کامییاب نہیں ہوں گے۔ چین نے امریکہ کی جانب سے شام پر عائد پابندیوں پر بھی تنقید کی۔
گزشتہ ماہ امریکہ نے ایسے تمام افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کی تھیں جو مالی طور پر یا کسی اور انداز میں شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔
امریکہ کے سیاسی رابطہ کار، روڈنی ہنٹر کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے لگائی جانے والی یک طرفہ پابندیوں میں انسانی بھلائی کیلئے استثنا رکھے گئے ہیں، اور وہ کسی بھی طرح شام کے عوام کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شام کے عوام کو صرف روس اور چین، صدر بشار الاسد کی حکومت کی امداد کر کے نقصان پہنچا رہے ہیں۔