پاکستان کی بڑی جماعت، پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے سخت بیانات آج کل ہیڈ لائنوں میں ہیں۔
سابق صدر نے چار دسمبر کو ٹنڈو الہیار میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر سخت تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’موجودہ حکومت کوئی سیاسی وژن نہیں رکھتی۔ تحریک انصاف کی حکومت 18 ویں آئینی ترمیم کو بنیاد بنا کر درحقیقت 1973 کے آئین کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے‘‘۔
یہی نہیں، بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہا کہ ’’حالیہ عام انتخابات کے ذریعے ایک کٹھ پتلی حکومت کو اقتدار میں لاکر بٹھا دیا گیا، جو ملک چلانے کے وژن سے عاری ہے‘‘۔
لیکن، سابق صدر نے کہا کہ ’’ہم نے عام انتخابات کے نتائج صرف اس لئے قبول کئے ہیں؛ کیونکہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی یہ کہے کہ جمہوری طاقتوں کے پاس حکومت چلانے کی قابلیت ہی نہیں‘‘۔
آصف علی زرداری کی جانب سے سخت بیانات کیوں آرہے ہیں؟
صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ایسے سخت بیانات تواتر کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ آخر ان سخت بیانات کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ کیا واقعی سابق صدر آصف علی زرداری اب مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں؟ یا پھر انہیں کسی دباؤ کا سامنا ہے؟
اِنہی سوالات پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اپوزیشن کا حصہ ہے؛ اور یہ کہ ’’سابق صدر اپوزیشن کی سیاست کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ وہی کر رہے ہیں جو حزب اختلاف کی جماعت کو کرنا چائیے، یعنی حکومت کی باز پرس‘‘۔
سیاسی پنڈت کیا کہتے ہیں؟
لیکن، پیپلز پارٹی قیادت کے برعکس سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اس خیال سے زیادہ اتفاق کرتے نظر نہیں آتے۔
ممتاز سیاسی تجزیہ کار، مظہر عباس جو کئی سال تک پاکستان پیپلز پارٹی کو بڑے قریب سے دیکھتے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سابق صدر کے یہ بیانات ان پر موجود دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ سابق صدر کے حالیہ بیانات صرف حزب اختلاف کی سیاست ہے۔
مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’’نہ صرف خود آصف زرداری بلکہ ان کی بہن فریال تالپور بھی اس وقت اپنے خلاف جاری عدالتی کارروائی اور تحقیقات کے دباؤ میں ہیں۔ وہ طاقتور حلقے جو ان کی بات سنتے تھے، وہاں ان کی باتیں اب سنی نہیں جا رہی ہیں۔ اور مستقبل قریب میں اب تک ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ انہیں کوئی فوری ریلیف مل سکے‘‘۔
بقول اُن کے، ایسی صورتحال میں جب مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف جیل میں ہیں اور نواز شریف عدالت میں اپنا دفاع کرنے میں خاموشی سے مگن ہیں جبکہ آصف علی زرداری فی الوقت کسی کو ساتھ ملانے کے بجائے اکیلے ہی نظر آ رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں وفاق میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں فی الحال کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔
آصف علی زرداری کے خلاف کن الزامات کے تحت انکوائری ہو رہی ہے؟
ان دِنوں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) منی لانڈرنگ اور جعل سازی کے الزامات کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ اِن دونوں اور ان سے منسلک کمپنیوں اور دیگر 2 درجن سے زائد ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے جعل سازی کے ذریعے جعلی بینک اکاونٹس قائم کئے، اور اب تک کی تحقیقات کے مطابق 35 ارب روپے کے کالے دھن کو سفید کیا۔
یاد رہے کہ سابق صدر اور پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری اپنے سیاسی کیرئیر میں بدعنوانی کے مختلف الزامات کے تحت تقریباً آٹھ سال جیل میں رہ چکے ہیں۔ مخالفین ان پر بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال، غیر قانونی کمیشن حاصل کرنے اور قتل جیسے سنگین الزامات بھی عائد کرتے ہیں۔ لیکن، آج تک یہ الزامات کسی عدالت میں ثابت نہیں ہو سکے۔ تاہم، ایک بات واضح ہے کہ پیپلز پارٹی اس وقت اپنی مقبولیت کے لحاظ سے پستی کی جانب گامزن ہے اور بہت سے لوگ اس کی وجوہات ڈھونڈتے ڈھونڈتے قیادت پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔