رسائی کے لنکس

صدارت میں اہم فیصلے کرنے پڑتے ہیں، یہ ٹی وی شو نہیں: اوباما


صدر اوباما ’ٹونائٹ شو‘ کے میزبان جمی فیلن کے ساتھ ہنستے ہوئے۔
صدر اوباما ’ٹونائٹ شو‘ کے میزبان جمی فیلن کے ساتھ ہنستے ہوئے۔

اوباما نے ٹونائٹ شو میں کہا کہ وہ پرائمری انتخابات کے دوران ہلری کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی میں ان کے حریف برنی سینڈز سے مسلسل رابطے میں رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ٹرمپ کے ساتھ ایسی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔

امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اس سال صدارتی انتخاب کے حوالے سے انکا کردار امریکی عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ صدارت ایک سنجیدہ کام ہے۔

انہوں نے این بی سی چینل کے ’ٹونائٹ شو‘ میں انٹرویو کے دوران کہا کہ ’’یہ ایک ریئلٹی ٹی وی نہیں۔‘‘ یہ شو جمعرات کو نشر کیا جائے گا۔

’’میں نے دیکھا ہے کہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور کام کرنا پڑتا ہے اور مجھے بہت اعتماد ہے کہ اگر امریکی عوام کو یاد دلایا جائے کہ کیا چیز داؤ پر ہے اور کن اہم ترین معاملات میں ہمیں چیزیں صحیح کرنے کی ضرورت ہے تو وہ ایک اچھا انتخاب کریں گے۔‘‘

ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹیوں کے پرائمری انتخابات کے عمل سے اوباما اب تک باہر رہے ہیں۔ مگر اب جبکہ ہلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں صدارتی انتخاب میں ایک دوسرے سے مقابلے کی تیاری کر رہے ہیں، صدر وائٹ ہاؤس میں کسی ڈیموکریٹ کو لانے کے لیے مدد کریں گے جو پارٹی کے امیدوار کی عہدہ صدارت پر تیسری مدت ہو گی۔

اوباما نے ٹونائٹ شو میں کہا کہ وہ پرائمری انتخابات کے دوران ہلری کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی میں ان کے حریف برنی سینڈز سے مسلسل رابطے میں رہے ہیں اور انہیں مشورے بھی دیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ٹرمپ کے ساتھ ایسی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔

اپنی مہم میں ٹرمپ نے مستقل اوباما کی صدارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہلری کلنٹن منتخب ہوئیں تو وہ اوباما کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گی۔

اوباما نے مذاقاً کہا کہ ڈیموکریٹس خوش ہیں کہ پرائمری انتخابات میں ٹرمپ کو ریپبلکن جماعت کا امیدوار چنا گیا مگر انہوں نے تشویش کا بھی اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک تب ہی بہتر طریقے سے چل سکتا ہے جب دونوں جماعتیں ’’سنجیدہ ہوں اور مسائل کے حل کے لیے کوشش کریں۔‘‘

’’آپ ایسا ریپبلکن امیدوار چاہیں گے جو جیتنے پر یہ کام کر سکے۔ اور آپ ایسے لوگ چاہیں گے جو مسائل کو سمجھ سکیں اور جہاں آپ ان کے ساتھ میز پر بیٹھ سکیں اور اصول پر مبنی مکالمہ کر سکیں اور بالآخر پھر بھی ملک کو آگے لے جا سکیں۔‘‘

صدر نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ دونوں جماعتیں اکٹھے کام کا طریقہ ڈھونڈ لیں گی۔ ان کا کہنا تھا جب انہوں نے 2009 میں صدارت کا عہدہ سنبھالا تھا تو ان کے لیے یہ توقع سے زیادہ مشکل تھا۔

’’جب میں صدر بنا تھا تو ہم ایک بحران کے بیچ میں کھڑے تھے۔ اور عموماً آپ امید کرتے ہیں کہ اچھا ہم سیاسی کھیل کھیلتے رہیں گے مگر جب بات سنجیدہ ہو، جب ہم ہر ماہ آٹھ لاکھ ملازمتیں کھو رہے ہوں، جب ہمارے ایک لاکھ اسی ہزار فوجی افغانستان اور عراق میں ہوں، تو ہم ایک لمحے کے لیے اپنی توجہ کام کرنے پر مرکوز کریں گے، ہم سیاست کو ایک طرف رکھیں گے اور کام ختم کریں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔‘‘

اوباما کے پیش رو جارج ڈبلیو بش اپنی صدارت کے دوران متعدد مرتبہ ’ٹونائٹ شو‘‘ میں آئے مگر میڈیا میں ان کی موجودگی نیوز شوز میں انٹرویو کے علاوہ کم تھی۔

اس کے برعکس صدر اوباما اور مشیل اوباما کی ٹاک شوز کے علاوہ سائنس اور کامیڈی پروگراموں میں بھی وسیع پیمانے موجودگی رہتی ہے۔ اوباما ایسے وقت صدر بنے جب سماجی رابطے کی ویب سائٹوں کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اوباما اور ان کی اہلیہ دونوں کے پاس ٹوئٹر اکاؤںٹ ہیں جس پر وہ خود یا ان کا سٹاف اکثر ٹوئیٹ کرتے رہتے ہیں۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ صدر کے طور پر کلنٹن یا ٹرمپ کس قسم کا میڈیا پروفائل رکھیں گے مگر دونوں اپنے خیالات کے اظہار اور حامیوں سے رابطوں کے لیے ٹوئیٹر کے استعمال میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسے ایک دوسرے پر حملوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG