صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان شراکت داری ختم نہیں ہو رہی ہے بلکہ قائم رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی فوج اور ملک کے لیے معاشی مدد بھی ختم نہیں ہو رہی ہے۔
صدر نے ان خیالات کا اظہار افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران کیا۔ اس موقع پر افغان صدر نے کہا کہ وہ انخلا کے صدر بائیڈن کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور مضبوط شراکت داری کے عزم پر ان کے شکر گزار ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ یہ افغانستان کے رہنما ہی ہیں جنہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور ہماری طرف سے مدد میں کمی نہیں آئے گی۔ صدر نے زور دیا کہ افغانستان میں تشدد کو ہر صورت ختم ہونا چاہیے۔
بائیڈن نے صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور جو کچھ ممکن ہو سکتا ہے آپ کے لیے کریں گے۔
اس موقع پر افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا کہ امریکہ اور افغانستان کے تعلقات محض فوجی شراکت داری سے آگے باہمی مفادات کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ہم امریکہ کے ساتھ تعلقات کے نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں جہاں دونوں ملکوں کے تعلقات فوجی نوعیت کے ہی نہیں ہوں گے بلکہ باہمی مفادات پر مبنی جامع تعلقات ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم بے حد مطمئن ہیں کہ یہ شراکت داری قائم رہے گی‘‘۔
صدر غنی نے امید ظاہر کی کہ افغانستان کے عوام اور راہنماوں میں اتفاق، سیکیورٹی فورسز کے عزم اور امریکہ کے ساتھ شراکت داری سے وہ مسائل پر قابو پا لیں گے۔
’’ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج جب ہم بات کر رہے ہیں افغانستان کی سیکیورٹی فورسز نے چھ اضلاع واپس لے لیے ہیں جو ملک کے جنوب اور شمال میں واقع ہیں۔ یہ چیز ہمارے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ وقت بری ٹرانزیشن کا ہے۔ چیزیں ہوتی ہیں لیکں آپ دیکھیں گے کہ عزم، اتحاد اور شراکت داری سے ہم مسائل پر قابو پا لیں گے‘‘
مہمان صدر نے افغانستان اور امریکہ کے لیے خدمات انجام دینے والے اور جان کی قربانی دینے والے امریکی فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
’’ مجھے ان 2448 امریکی شہریوں کو خراج عقیدت پیش کرنے دیجیے جنہوں نے افغانستان کے اندر اپنی زندگیوں کی قربانی دی ہے۔ ان دسیوں لاکھوں فوجیوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے امریکہ کی خدمت کی ہے اور آزادیوں کو یقینی بنایا ہے۔‘‘
صدر اشرف غنی نے کہا کہ صدر بائیڈن کا انخلا کا فیصلہ تاریخی ہے جس کے بعد ہر ایک نے حالات کا دوبارہ جائزہ لیا ہے اور اس پر غور کیا ہے۔ ہم یہاں اس فیصلے کے احترام اور اس کی حمایت کے لیے موجود ہیں۔
صدر غنی نے کہا کہ افغانستان کے عوام آج جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں جو امریکہ کے صدر ابراہم لنکن کے 1861 کے دور جیسے ہیں۔ جہاں ایک ملک کے دفاع کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور پرعزم ہیں کہ ملک کا دفاع کیا جائے اور اس میں سب کو شریک حال رکھنے کی اقدار کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اتحاد، یگانت اور قومی سطح پر قربانیوں کے احساس کے ساتھ متحد ہونے کے لیے پرعزم ہیں۔
وائٹ ہاوس آمد سے قبل صدر غنی کا کیپیٹل ہل اور پینٹاگان کا دورہ
صدر اشرف غنی نے اس سے قبل کیپیٹل ہل کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اسپیکر نینسی پیلوسی اور دیگر اراکین کانگریس سے ملاقات کی۔ انہوں نے اس موقع پر امریکہ کی جانب سے جاری مدد کا شکریہ ادا کیا کہ کرونا کی عالمی وبا، ملک میں خشک سالی کی تیسری لہر اور طالبان کے بہیمانہ حملوں کے وقت میں افغانستان کے عوام کے لیے امریکہ کی مدد کی بے حد اہمیت ہے۔
جمعے کو افغان صدر اور افغانستان کی قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس میں موجود ہیں۔
صدر غنی نے جمعے کو امریکہ کے وزیردفاع لائیڈ آسٹن کے ساتھ پینٹاگان میں ملاقات کی۔
صدر بائیڈن کے ساتھ ملاقات سے پہلے کیپیٹل ہل پہنچنے پر ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا استقبال کیا اور انہیں خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر صدر غنی نے کہا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے انخلا کے فیصلے کو سمجھتے ہیں اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں انسانی ہمدری کے تحت امداد اور دیگر اقدامات جاری رکھے گا۔
’’ صدر بائیڈن کا فیصلہ اسٹریٹجک نوعیت کا فیصلہ ہے۔ ہم اس فیصلے کی عزت کرتے ہیں‘‘۔
صدر غنی نے وائٹ ہاؤس میں نینسی پیلوسی کے ساتھ ساتھ دیگر اراکینِ کانگریس سے بھی ملاقات کی۔ صدر غنی نے کہا کہ ان کا دورہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان نئی دوستی اور تعلق کا نیا باب ہے۔‘‘
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صدر غنی نے اس موقع پر گزشتہ 21 برسوں کے دوران افغانستان کے اندر خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششوں کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ اکثر اسکولوں میں جاتے ہیں اور بچیوں سے جب پوچھتے ہیں کہ آپ میں سے کون کون ملک کا صدر بننا چاہتی ہیں تو بقول ان کے، 80 سے 90 فیصد بچیاں اپنا ہاتھ کھڑا کرتی ہیں۔ ان کے بقول ’’یہ نیا افغانستان ہے‘‘۔
صدر غنی نے کہا کہ ایسے میں جب بین الاقوامی برادری کے افغانستان میں موجود رہنے کی دو دہائیوں بعد ٹرانزیشن ہو رہی ہے، وہ افغانستان کے عوام کے لیے امریکہ کی انسانی بنیادوں پر مدد پر تبادلہ خیال کریں گے، بتائیں گے کہ ملک میں کرونا کی عالمی وبا، خشک سالی کی تیسری لہر اور طالبان کے بہیمانہ حملوں کے سبب یہ امداد کتنی اہمیت کی حامل ہے۔
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے ہمراہ اس موقع پر افغانستان کی خاتوں اول بھی موجود تھیں۔
سینئر ڈیموکریٹ رہنما نینسی پیلوسی نے افغانستان کے اندر خواتین کو با اختیار بنانے کی کوششوں پر خاتون اول اور صدر غنی کی کاوشوں کو سراہا۔ صدر غنی نے کہا کہ خاتون اول کی یہاں موجودگی کا مقصد افغانستان کی تمام خواتین کی جانب سے امریکہ کا شکریہ ادا کرنا ہے۔
پینٹاگان میں وزیر دفاع کے ساتھ مہمان وفد کی ملاقات:
وائٹ ہاؤس پہنچنے سے قبل افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنے وفد کے ساتھ امریکی محکمہ دفاع کے صدر دفتر پینٹاگان کا دورہ کیا اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات کی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ وہ ایک بار پھر باور کراتے ہیں کہ محکمہ دفاع نے افغانستان کے اندر جنگ کے خاتمے کے لیے مذکرات کے ذریعے تصفیے کے لیے بہت محنت کی ہے تاکہ افغانستان کے اندر امن اور استحکام آ سکے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تصاویر کے سیشن کے بعد لائیڈ آسٹن نے کہا کہ وہ افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت بالخصوص مضبوط دفاعی تعلقات کے امریکہ کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔
انہوں نے اس موقع پر امریکہ اور افغانستان، دونوں ملکوں کی افواج کی طرف سے دی گئی قربانیوں پر ان کو خراج تحسین پیش کیا۔
امریکی وزیر دفاع نے افغانستان کے لیے سیکیورٹی امداد جاری رکھنے کا بھی اعادہ کیا۔
’’ امریکہ افغانستان کی نیشنل ڈیفینس اور سیکیورٹی فورسز کے لیے اہم نوعیت کی سیکیورٹی معاونت جاری رکھنے کے عزم پر کاربند ہے۔ اور ہم اس ٹرانزیشن کو ایسے نئے تعلقات میں ڈھالیں گے جو آپ کو آپ کے شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داریاں نبھانے میں مددگار ہوں گے‘‘۔
صدر اشرف غنی نے اس موقع پر کہا کہ امریکہ کی جانب سے جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ اسٹریٹجک نوعیت کا ہے جس سے ہر ایک کے حساب کتاب اور جنگ سے امن کی جانب جانے کی ضرورت میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس کے اثرات گہرے ہیں اور صدر غنی کے بقول وہ یہاں موجود ہیں تاکہ دیکھیں کہ کس طرح ان حالات کو ایک مشترکہ کامیابی بنایا جا سکتا ہے۔
ادھر وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے بھی جو یورپ کے دورے پر موجود ہیں، جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ افغانستان سے فوجی انخلا کر رہا ہے لیکن ملک کے مستقبل سے لا تعلق نہیں ہو رہا ہے۔
’’ ہم افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی، معاشی اور ترقیاتی پروگراموں بشمول خواتین اور لڑکیوں کے لیے امداد جاری رکھیں گے‘‘۔
بلنکن کے مطابق، وائٹ ہاؤس کو معلوم ہے کہ وہاں حقیقی خطرہ موجود ہے۔ اور طالبان ملک پر طاقت کے ذریعہ قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور اس سے جنگ کو ایک نئی شروعات مل سکتی ہیں اور خراب حالات کے امکانات موجود ہیں۔
جمعے کے روز کی سربراہ ملاقات سے قبل بائیڈن انتطامیہ نے، تصدیق کی کہ وہ ان ہزاروں افغان شہریوں کو دوسری جگہ منتقل کریں گے جنہوں نے جنگ کے دوران مترجم کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے گزشتہ اتوار کو ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بین الاقوامی برادری 20 سال قبل اس واضح مقصد کے ساتھ افغانستان آئی تھی کہ اسے انتہا پسندی کے خلاف لڑنا ہے اور استحکام لانا ہے لیکن ان کے بقول 20 سال بعد انتہا پسندی عروج پر ہے۔
’’ وہ افغانستان کو مکمل تباہی اور بربادی کے عالم میں چھوڑے جا رہے ہیں‘‘
طالبان نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں افغانستان کے صدر کے دورہ امریکہ کو وقت کا ضیاع قرار دیا تھا۔