وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیٹ شناہن کو امریکہ کا نیا وزیرِ دفاع نامزد کریں گے۔
شناہن رواں سال جنوری سے قائم مقام وزیرِ دفاع کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہیں یہ ذمہ داری وزیرِ دفاع جِم میٹس کے استعفے کے بعد سونپی گئی تھی جو گزشتہ سال بعض پالیسی امور پر صدر ٹرمپ سے اختلافات کے باعث مستعفی ہوگئے تھے۔
شناہن کی بطور مستقل وزیرِ دفاع نامزدگی کا اعلان وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سارہ سینڈرز نے جمعرات کو ایک ٹوئٹ میں کیا ہے۔
اپنے ٹوئٹ میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا ہے کہ گزشتہ مہینوں کے دوران شناہن نے ثابت کیا کہ وہ وزارتِ دفاع کی قیادت کے اہل ہیں اور وہ مستقبل میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیتے رہیں گے۔
اپنی نامزدگی کے اعلان پر ردِ عمل میں شناہن نے کہا ہے کہ یہ ان کے لیے ایک اعزاز ہے اور اگر سینیٹ نے ان کی تقرری کی توثیق کردی تو وہ امریکی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور امریکی فوجیوں کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
قبل ازیں پینٹاگون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیٹ شناہن نے بتایا تھا کہ انہیں بطور وزیرِ دفاع اپنی نامزدگی کے بارے میں صدر کے ارادے کا جمعرات کو اس وقت پتا چلا تھا جب وہ ایک اجلاس کے لیے وائٹ ہاؤس گئے تھے۔
شناہن کے پیش رو جِم میٹس ریٹائرڈ میرین جنرل تھے جنہوں نے وزارتِ دفاع کی قیادت سنبھالنے سے قبل 40 برس سے زائد عرصے تک فوج میں مختلف عہدوں پر ذمہ داریاں انجام دی تھیں۔
میٹس کے برعکس شناہن کبھی فوج کا حصہ نہیں رہے اور وزارتِ دفاع آنے سے قبل وہ 30 سال تک امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔
انہیں صدر ٹرمپ نے مارچ 2017ء میں نائب وزیرِ دفاع نامزد کیا تھا اور انہیں امریکی فوج میں اضافے سے متعلق منصوبوں کی نگرانی کا ٹاسک دیا تھا۔
ناقدین دفاعی امور کا تجربہ نہ ہونے اور بوئنگ جیسی اہم کمپنی میں طویل عرصے تک کام کرنے کی بنیاد پر مفادات کے ٹکراؤ کے خدشے کے پیشِ نظر شناہن کی بطور نائب وزیرِ دفاع اور پھر عبوری وزیرِ دفاع کے طور پر تعیناتی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بوئنگ کو امریکی محکمۂ دفاع نے فوج کے لیے جدید ٹیکنالوجیز اور ہتھیاروں کی تیاری کے کئی ٹھیکے دے رکھے ہیں۔
لیکن اگر سینیٹ نے شناہن کی نامزدگی کی توثیق کردی تو وہ بغیر کسی عسکری تجربے کے باوجود وزارتِ دفاع کی قیادت کرنے والے پہلے فرد نہیں ہوں گے۔
ماضی قریب میں صدر براک اوباما کے وزیرِ دفاع ایش کارٹر بھی کسی عسکری یا فوجی تجربے کے حامل نہیں تھے۔