صدر براک اوباما ایک ایسے وقت میں اپنے سالانہ ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب کی تیاری کر رہے ہیں جب واشنگٹن اور کئی دیگر ممالک نے فرانس میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بعد سلامتی کے خدشات کے حوالے سے سخت حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں۔
منگل کو کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب سے پہلے بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں بلجئیم میں مشتبہ شدت پسندوں اور پولیس میں فائرنگ کا تبادلہ، جرمنی میں پولیس کے چھاپے، یونان میں گرفتاریاں اور یورپ میں سکیورٹی انتظامات میں اضافہ، یہ سب کچھ فرانسیسی فکاہیہ جریدے چارلی ایبڈو پر ہونے والے حملے کے بعد ہوا۔
یورپ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یورو پول کے سربراہ راب وین رائٹ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے اقدامات نئے خطرے کے مطابق ہونے چاہیئں۔
وین رائٹ نے کہا کہ’’ہم اپنی قومی حکومت اور نیشنل پولیس کی طرف سے ایک پر عزم رد عمل دیکھ رہے ہیں اور یورو پول جیسے ادارے فوری طور پر ایسے طریقوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ہر جگہ انسداد دہشت گردی کے لیے خدمات فراہم کر سکتے ہیں اور دہشت گردی کو فراہم کی جانی والی مالی امداد کی نگرانی، غیر قانونی اسلحہ اور خاص طور دہشت گردوں کی آن لائن کارروائیوں کی نگرانی کے لیے بہتر انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔‘‘
صدر اوباما ریپبلکن اکثریت والی کانگرس کے ساتھ مل کر ایک ایسے ایجنڈے پر کام کرنے کے خواہاں ہیں جس میں اندرون ملک ترجیحات کے ساتھ ساتھ تیز رفتار بین الاقوامی ترقی بھی شامل ہے۔
صدر اوباما نے کہاکہ ’’متشدد انتہا پسندی کے رحجان اور (دہشت گردوں کی طرف سے) نوجوان افراد کو بھرتی کرنے کی صلاحیت نے بڑی وسیع وبا کی صورت اختیار کر لی ہے اور یہ دنیا بھر کے (معاشروں)میں داخل ہو گئی ہے‘‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ’’یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بڑی تکلیف، سانحہ اور تباہی کا باعث ہے لیکن یہ ایک ایسا (مسئلہ ) ہے جس کو ہم بالاآخر شکست دے دیں گے۔‘‘
خیال کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کے چھپے ہوئے گروہ کئی ملکوں میں موجود ہیں اور چارلی ایبڈو جیسے واقعات کے لیے دنیا بھر میں انتہا پسندوں کے حملوں کے امکانات موجود ہیں جو امریکہ سمیت دیگر ممالک کے لیے باعث تشویش ہیں۔