صدر براک اوباما اپنے حریف ریپبلکن پارٹی کے مٹ رومنی کو شکست دے کر دوسری اور آخری مدت کے لیے امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔
تازہ ترین اندازوں کے مطابق انھوں نے 303 جب کہ رومنی نے 206 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں پہنچنے کے لیےصدارتی امیدوار کو538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
فتح کے بعد شکاگو میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ انھوں نے اپنے حریف مٹ رومنی کو ایک اچھا مقابلہ کرنے پر مبارکباد دی ہے اور وہ چاہیں گے کہ ان کے ساتھ مل کر امریکیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کریں۔
’’میں زیادہ پر عزم اور پہلے سے زیادہ جذبے کے ساتھ کام کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس واپس جارہا ہوں اُس مستقبل کے حصول کی خاطر جس کے لیے آپ نے مجھے ووٹ دیا۔‘‘
صدر اوباما نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے وہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کے منتظرہیں کیونکہ بجٹ خسارے میں کمی، ٹیکس کے نظام میں اصلاحات اور امیگریشن جیسے معاملات مل جل کر ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔
صدر اوباما نے چند روز قبل شکاگو میں اپنا ووٹ ڈالا تھا اور منگل کا دن بھی وہیں گزارا جہاں اُنھوں نے نشریاتی اداروں کو انٹرویوزدینے کے علاوہ دوستوں کے ساتھ باسکٹ بال کھیلا اور اپنے انتخابی دفتر سے رائے دہندگان سے رابطے بھی کیے۔
مٹ رومنی نے شمال مشرقی میساچوسٹس ریاست میں منگل کو اپنا ووٹ ڈالا جہاں وہ گورنر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں لیکن یہاں بھی صدر اوباما جیت گئے۔
صدر اوباما اب تک کے نتائج کے مطابق ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور 25 ریاستوں میں انتخابی معرکہ جیت چکے ہیں۔ ان میں سخت مقابلے والی ریاستیں اوہائیو، آئیوا، نیوہمپشائر اور پنسلوانیا شامل ہیں۔
مٹ رومنی نے شکست کے بعد میساچوٹس میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے ٹیلی فون کر کے صدر اوباما کو اُن کی جیت پر مبارک باد پیش کی ہے۔’’اُن کے حامی اور انتخابی مہم بھی مبارکباد کی حقدار ہے۔‘‘
’’میری خواہش تھی کہ میں اس ملک کی ایک مختلف سمت میں رہنمائی کرتا،قوم نے اس کے لیے ایک دوسرے قائد کا انتخاب کیا جس پر میں اور میری بیوی صدق دل سے اُن کے اور اس عظیم قوم کے لیے دعاگو ہیں۔‘‘
رومنی نے کہا کہ امریکی عوام جانتے ہیں کہ ملک ایک نازک موڑ پرکھڑا ہے۔ ’’ان حالات میں ہم جماعتی بنیادوں پر سیاسی لڑائی جھگڑوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘
مسٹر رومنی 23 ریاستوں میں کامیاب ہوئے جن میں سخت مقابلے کی ریاستیں نارتھ کیرولائنا اور انڈیانا شامل ہیں جہاں پچھلے انتخاب میں صدر براک اوباما کامیاب ہوئے تھے۔
دھاندلی کے الزامات کی جواب دہی کے لیے امریکی وزارت انصاف نے 23 ریاستوں میں لگ بھگ آٹھ سو مبصرین تعینات کررکھے تھے۔
ڈیڑھ سالہ طویل مہم، تین صدارتی مباحثوں اور ٹی وی پر اشتہارات کی مہم کے بعد قبل ازانتخابات عوامی جائزوں میں دونوں اُمیدوارں کے درمیان ایک انتہائی سخت معرکے کی پیش گوئیاں کی گئی تھیں۔
تاہم ان جائزوں میں سخت مقابلے والی ریاستوں میں صدر اوباما کو معمولی سبقت حاصل رہی۔
2008 کے صدارتی انتخاب میں صدر اوباما کے مدمقابل ریپبلکن امیدوار جان مکین نے ریاست پنسلوانیا اور اوہائیو اپنے ہاتھ سے نکلنے کے بعد شکست تسلیم کرتے ہوئے مسٹر اوباما کو مبارک باد کا پیغام بھیج دیاتھا جب کہ اس وقت تک گنتی مکمل نہیں ہوئی تھی اور کئی ریاستوں کے نتائج آنا باقی تھے۔
امریکی ریاستوں کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد کا تعین ان کی آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
اکثر ریاستوں میں دونوں پارٹیوں کی تقسیم واضح ہے اور وہاں عشروں سے دونوں میں سے کوئی ایک جماعت مسلسل کامیاب ہوتی آرہی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈیموکریٹک اور ریپبلکن، دونوں جماعتیں زیادہ توجہ اور دھیان غیر واضح رجحان کی ریاستوں پر مرکوز رکھتی ہیں۔
2012 کی صدارتی مہم نے بھی عطیات اور اخراجات کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ صدر اوباما نے اپنی مہم کے لیے 93 کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم جمع کی جب کہ مسٹر رومنی کی جمع کردہ رقم 88 کروڑ ڈالر سے زیادہ رہی۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ پارٹیوں کی تشہیر پر صرف ہوا ، جب کہ زیادہ تر اشتہارات ایک دوسرے کے بارے میں منفی مواد پر مبنی تھے۔
تازہ ترین اندازوں کے مطابق انھوں نے 303 جب کہ رومنی نے 206 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں پہنچنے کے لیےصدارتی امیدوار کو538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
فتح کے بعد شکاگو میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ انھوں نے اپنے حریف مٹ رومنی کو ایک اچھا مقابلہ کرنے پر مبارکباد دی ہے اور وہ چاہیں گے کہ ان کے ساتھ مل کر امریکیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کریں۔
’’میں زیادہ پر عزم اور پہلے سے زیادہ جذبے کے ساتھ کام کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس واپس جارہا ہوں اُس مستقبل کے حصول کی خاطر جس کے لیے آپ نے مجھے ووٹ دیا۔‘‘
صدر اوباما نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے وہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کے منتظرہیں کیونکہ بجٹ خسارے میں کمی، ٹیکس کے نظام میں اصلاحات اور امیگریشن جیسے معاملات مل جل کر ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔
صدر اوباما نے چند روز قبل شکاگو میں اپنا ووٹ ڈالا تھا اور منگل کا دن بھی وہیں گزارا جہاں اُنھوں نے نشریاتی اداروں کو انٹرویوزدینے کے علاوہ دوستوں کے ساتھ باسکٹ بال کھیلا اور اپنے انتخابی دفتر سے رائے دہندگان سے رابطے بھی کیے۔
مٹ رومنی نے شمال مشرقی میساچوسٹس ریاست میں منگل کو اپنا ووٹ ڈالا جہاں وہ گورنر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں لیکن یہاں بھی صدر اوباما جیت گئے۔
صدر اوباما اب تک کے نتائج کے مطابق ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور 25 ریاستوں میں انتخابی معرکہ جیت چکے ہیں۔ ان میں سخت مقابلے والی ریاستیں اوہائیو، آئیوا، نیوہمپشائر اور پنسلوانیا شامل ہیں۔
مٹ رومنی نے شکست کے بعد میساچوٹس میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے ٹیلی فون کر کے صدر اوباما کو اُن کی جیت پر مبارک باد پیش کی ہے۔’’اُن کے حامی اور انتخابی مہم بھی مبارکباد کی حقدار ہے۔‘‘
’’میری خواہش تھی کہ میں اس ملک کی ایک مختلف سمت میں رہنمائی کرتا،قوم نے اس کے لیے ایک دوسرے قائد کا انتخاب کیا جس پر میں اور میری بیوی صدق دل سے اُن کے اور اس عظیم قوم کے لیے دعاگو ہیں۔‘‘
رومنی نے کہا کہ امریکی عوام جانتے ہیں کہ ملک ایک نازک موڑ پرکھڑا ہے۔ ’’ان حالات میں ہم جماعتی بنیادوں پر سیاسی لڑائی جھگڑوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔‘‘
مسٹر رومنی 23 ریاستوں میں کامیاب ہوئے جن میں سخت مقابلے کی ریاستیں نارتھ کیرولائنا اور انڈیانا شامل ہیں جہاں پچھلے انتخاب میں صدر براک اوباما کامیاب ہوئے تھے۔
دھاندلی کے الزامات کی جواب دہی کے لیے امریکی وزارت انصاف نے 23 ریاستوں میں لگ بھگ آٹھ سو مبصرین تعینات کررکھے تھے۔
ڈیڑھ سالہ طویل مہم، تین صدارتی مباحثوں اور ٹی وی پر اشتہارات کی مہم کے بعد قبل ازانتخابات عوامی جائزوں میں دونوں اُمیدوارں کے درمیان ایک انتہائی سخت معرکے کی پیش گوئیاں کی گئی تھیں۔
تاہم ان جائزوں میں سخت مقابلے والی ریاستوں میں صدر اوباما کو معمولی سبقت حاصل رہی۔
2008 کے صدارتی انتخاب میں صدر اوباما کے مدمقابل ریپبلکن امیدوار جان مکین نے ریاست پنسلوانیا اور اوہائیو اپنے ہاتھ سے نکلنے کے بعد شکست تسلیم کرتے ہوئے مسٹر اوباما کو مبارک باد کا پیغام بھیج دیاتھا جب کہ اس وقت تک گنتی مکمل نہیں ہوئی تھی اور کئی ریاستوں کے نتائج آنا باقی تھے۔
امریکی ریاستوں کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد کا تعین ان کی آبادی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
اکثر ریاستوں میں دونوں پارٹیوں کی تقسیم واضح ہے اور وہاں عشروں سے دونوں میں سے کوئی ایک جماعت مسلسل کامیاب ہوتی آرہی ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈیموکریٹک اور ریپبلکن، دونوں جماعتیں زیادہ توجہ اور دھیان غیر واضح رجحان کی ریاستوں پر مرکوز رکھتی ہیں۔
2012 کی صدارتی مہم نے بھی عطیات اور اخراجات کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ صدر اوباما نے اپنی مہم کے لیے 93 کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم جمع کی جب کہ مسٹر رومنی کی جمع کردہ رقم 88 کروڑ ڈالر سے زیادہ رہی۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ پارٹیوں کی تشہیر پر صرف ہوا ، جب کہ زیادہ تر اشتہارات ایک دوسرے کے بارے میں منفی مواد پر مبنی تھے۔