کئی امریکی ایسے بھی ہیں جنھوں نےصدارتی انتخاب میں پہلی بار اپنا ووٹ ڈالا۔
ووٹ کے حق کا پہلی بار استعمال ایک خصوصی موقعہ میسر آنے سے کم نہیں۔ تاہم، واشنگٹن ڈی سی کےدیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک نئی امریکی شہری کے لیے ووٹ دینا بذات خود خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔
’وائس آف امریکہ ‘کی کیٹ ووڈ سم نے ریاست میری لینڈ کے شہر سلور اسپرنگ سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کترینا دزون کی ہفتے بھر سے نیند اُڑی ہوئی تھی۔ وہ امریکی انتخابات کا بے چینی سے انتظار کرتی رہی ہیں۔
کترینا نے بتایا کہ سوتےمیں اُنھیں یاد آیا کہ وہ گھڑی کی گھنٹی سیٹ نہیں کر پائیں۔
’میں نے 6بجے صبح کا الارم سیٹ کیا۔ تاہم، میں 5بجے سےہی کروٹیں بدلتی رہی اِس انتظار میں کہ الارم کب بجےگا اور میں اُٹھ کھڑی ہوں۔ میں بیدار ہونے کے انتظار میں بے چین تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں پہلی بار ووٹ ڈالنا چاہتی تھی اور اس کا احساس ہی یقین سے بالا تر لگتا تھا‘۔
انتیس برس کی فلپین نژاد امریکی شہری نے بتایا کہ وہ پریشان سی تھیں، لگتا تھا جیسے پہلی بار ووٹ ڈالتے وقت کہیں وہ ووٹنگ مشین کو ہی نہ توڑ ڈالیں۔
اُن کے الفاظ میں: ’لیکن، یہ کام خیروخوبی سے سرانجام پایا۔ اور یقینی طور پر میں بہت خوش ہوں۔ اس لیے بھی کہ انتخابی مہم کے دوران میں نے سخت محنت کی تھی۔ میں دروازے کھٹکھٹایا کرتی تھی۔ اپنے دوستوں سے مل کر میں فون کالز کیا کرتی تھی۔ یہی بات میرے لیے کیا کم تھی کہ میں انتخابی عمل کا ایک حصہ ہوں۔ میں بے انتہا خوش ہوں۔
دزون ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار صدر براک اوباما کے دوبارہ انتخاب کی حامی ہیٕں۔
وہ تین ماہ قبل ہی امریکی شہری بنی ہیں۔
وہ صرف تین برس کی تھیں جب وہ فلپین سے امریکہ آئی تھیں۔ اُن کا خاندان ٹورسٹ ویزے پر یہاں آیا تھا اور کئی سالوں تک غیر قانونی تارکین وطن رہ چکی ہیں، جس کے بعد کہیں جاکر اُنھیں باقاعدہ قانونی رہائش کا درجہ حاصل ہوا۔
دزون کہتی ہیں کہ یہی سبب ہے جِس کے باعث وہ محنت کشوں کی تحریک کی طرف راغب ہوئیں، تارکین وطن کی آواز بنیں اور آج مسٹر اوباما کو ووٹ ڈال رہی ہیں۔
اُن کے بقول، وہ (صدر اوباما) مجموعی طور پر اُن اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں جنھیں میں اپنی زندگی کا جزو سمجھ کر جوان ہوئی۔ میں ایشیائی نژاد امریکی برادری کے احساسات سے قریب تر ہوں۔ میرے خیال میں اُنھوں (مسٹر اوباما) نےہمیں ملازمت کی جگہ اور ملک میں ایک مقام دلانے کے لیےسخت جدوجہد کی ہے۔
دزون کا کہنا ہے کہ علاقے کی فلپینی برادری کے دیگر ارکان، جن میں زیادہ تر کیتھولک ہیں، مشترکہ اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے صدر کے انتخاب کے لیے میساچیوسٹس کے سابق گورنر ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار مٹ رومنی کو ووٹ ڈال رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر مسٹر رومنی فتحیاب ہوئے تو اُنھیں مایوسی ہوگی، لیکن وہ احترام کے ساتھ اسے قبول کرلیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ کوئی بھی جیتے وہ مزدوروں کی وکالت کرتی رہیں گی، خصوصی طور پر اب جب کہ امریکی شہری کی حیثیت سے اُن کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سارے تارکین ِوطن کو یہ بات مدِنظر رکھنی چاہیئے کہ صدر کوئی بھی بنے جمہوری عمل میں شرکت بذات خود ایک کامیابی ہے۔
ووٹ کے حق کا پہلی بار استعمال ایک خصوصی موقعہ میسر آنے سے کم نہیں۔ تاہم، واشنگٹن ڈی سی کےدیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک نئی امریکی شہری کے لیے ووٹ دینا بذات خود خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔
’وائس آف امریکہ ‘کی کیٹ ووڈ سم نے ریاست میری لینڈ کے شہر سلور اسپرنگ سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کترینا دزون کی ہفتے بھر سے نیند اُڑی ہوئی تھی۔ وہ امریکی انتخابات کا بے چینی سے انتظار کرتی رہی ہیں۔
کترینا نے بتایا کہ سوتےمیں اُنھیں یاد آیا کہ وہ گھڑی کی گھنٹی سیٹ نہیں کر پائیں۔
’میں نے 6بجے صبح کا الارم سیٹ کیا۔ تاہم، میں 5بجے سےہی کروٹیں بدلتی رہی اِس انتظار میں کہ الارم کب بجےگا اور میں اُٹھ کھڑی ہوں۔ میں بیدار ہونے کے انتظار میں بے چین تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں پہلی بار ووٹ ڈالنا چاہتی تھی اور اس کا احساس ہی یقین سے بالا تر لگتا تھا‘۔
انتیس برس کی فلپین نژاد امریکی شہری نے بتایا کہ وہ پریشان سی تھیں، لگتا تھا جیسے پہلی بار ووٹ ڈالتے وقت کہیں وہ ووٹنگ مشین کو ہی نہ توڑ ڈالیں۔
اُن کے الفاظ میں: ’لیکن، یہ کام خیروخوبی سے سرانجام پایا۔ اور یقینی طور پر میں بہت خوش ہوں۔ اس لیے بھی کہ انتخابی مہم کے دوران میں نے سخت محنت کی تھی۔ میں دروازے کھٹکھٹایا کرتی تھی۔ اپنے دوستوں سے مل کر میں فون کالز کیا کرتی تھی۔ یہی بات میرے لیے کیا کم تھی کہ میں انتخابی عمل کا ایک حصہ ہوں۔ میں بے انتہا خوش ہوں۔
دزون ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار صدر براک اوباما کے دوبارہ انتخاب کی حامی ہیٕں۔
وہ تین ماہ قبل ہی امریکی شہری بنی ہیں۔
وہ صرف تین برس کی تھیں جب وہ فلپین سے امریکہ آئی تھیں۔ اُن کا خاندان ٹورسٹ ویزے پر یہاں آیا تھا اور کئی سالوں تک غیر قانونی تارکین وطن رہ چکی ہیں، جس کے بعد کہیں جاکر اُنھیں باقاعدہ قانونی رہائش کا درجہ حاصل ہوا۔
دزون کہتی ہیں کہ یہی سبب ہے جِس کے باعث وہ محنت کشوں کی تحریک کی طرف راغب ہوئیں، تارکین وطن کی آواز بنیں اور آج مسٹر اوباما کو ووٹ ڈال رہی ہیں۔
اُن کے بقول، وہ (صدر اوباما) مجموعی طور پر اُن اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں جنھیں میں اپنی زندگی کا جزو سمجھ کر جوان ہوئی۔ میں ایشیائی نژاد امریکی برادری کے احساسات سے قریب تر ہوں۔ میرے خیال میں اُنھوں (مسٹر اوباما) نےہمیں ملازمت کی جگہ اور ملک میں ایک مقام دلانے کے لیےسخت جدوجہد کی ہے۔
دزون کا کہنا ہے کہ علاقے کی فلپینی برادری کے دیگر ارکان، جن میں زیادہ تر کیتھولک ہیں، مشترکہ اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے صدر کے انتخاب کے لیے میساچیوسٹس کے سابق گورنر ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار مٹ رومنی کو ووٹ ڈال رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر مسٹر رومنی فتحیاب ہوئے تو اُنھیں مایوسی ہوگی، لیکن وہ احترام کے ساتھ اسے قبول کرلیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ کوئی بھی جیتے وہ مزدوروں کی وکالت کرتی رہیں گی، خصوصی طور پر اب جب کہ امریکی شہری کی حیثیت سے اُن کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سارے تارکین ِوطن کو یہ بات مدِنظر رکھنی چاہیئے کہ صدر کوئی بھی بنے جمہوری عمل میں شرکت بذات خود ایک کامیابی ہے۔