لاطینی امریکہ کے ملک ہیٹی کے قائم مقام وزیرِ اعظم نے تصدیق کی ہے کہ ملک کے صدر جووینل موئس کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب اُن کی رہائش گاہ میں غیر انسانی اور بربریت پر مبنی حملے میں قتل کر دیا گیا ہے۔
قائم مقام وزیرِ اعظم کلاڈ جوزف نے ایک بیان میں بتایا کہ مسلح افراد نے دارالحکومت پورٹ او پرنس میں صدر کے گھر میں گھس کر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں صدر کی اہلیہ بھی زخمی ہوئی ہیں جنہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
البتہ وزیرِ اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ حملہ آور کون تھے۔
ہیٹی کے صدر پر حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک میں کرپشن کے الزامات عام ہیں جب کہ سیاسی عدم استحکام، غذائی قلت اور بے امنی کی وجہ سے ملک انتشار کا شکار ہے۔
ہیٹی کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ عوام کے تحفظ اور ریاستی اُمور چلانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ملک کی صورتِ حال مسلح افواج اور سیکیورٹی اداروں کے کنٹرول میں ہے۔
واقعے کے بعد ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرنس میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔
دارالحکومت میں حالیہ عرصے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جب کہ شہر کی سڑکوں پر مختلف گروہوں کے آپسی جھگڑوں اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی معمول بن چکی ہیں۔
ہیٹی میں 2017 میں مقتول صدر کے اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی عدم استحکام اور غربت کی وجہ سے تشدد میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
حزبِ اختلاف کے رہنما بھی صدر پر یہ الزام لگاتے تھے کہ وہ ملک کے مسائل حل کرنے کے بجائے آمرانہ انداز میں ملکی اُمور چلا رہے ہیں جب کہ 2018 سے زیرِ التوا انتخابات کرانے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔
البتہ صدر موئس ان الزامات کی تردید کرتے رہے تھے۔
ہیٹی کا شمار لاطینی امریکہ کے پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عوامی سطح پر احتجاج بھی ہوتا رہتا ہے۔
ہیٹی میں 2010 میں شدید نوعیت کے زلزلے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے باعث ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
سن 2016 میں سمندری طوفان نے بھی ہیٹی میں تباہ مچا دی تھی۔ امریکہ اور عالمی برادری نے ہیٹی کے مسائل حل کرنے کے لیے اس کے لیے امداد کا بھی اعلان کیا تھا۔