رسائی کے لنکس

لندن میں خواجہ آصف کو چاقو مارنے کی دھمکی پر کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟


  • سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ایک شخص ٹرین سے اُترتے ہوئے خواجہ آصف کو دھمکیاں اور گالیاں دے رہا ہے۔
  • مذکورہ شخص نے خواجہ آصف کو چاقو مارنے کی بھی دھمکی دی۔
  • خواجہ آصف ایک دوست کے ہمراہ خاموشی سے پلیٹ فارم پر اُتر کر چلے جاتے ہیں جب کہ ویڈیو بنانے والا شخص اس میں اپنا چہرہ ظاہر نہیں کرتا۔
  • ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے برطانیہ میں قانون موجود ہے مگر قانون تب ہی حرکت میں آتا ہے جب متاثرہ شخص اِس کی شکایت کرتا ہے: بیرسٹر امجد ملک
  • دھمکی دینے والے شخص کے خلاف پاکستان اور برطانیہ کے ادارے قانونی کارروائی کر سکتے ہیں: سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید

لاہور -- پاکستان کے دفترِ خارجہ نے لندن میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو حملے کی دھمکیاں اور گالیاں دینے کے معاملے کو افسوس ناک قرار دیا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اس واقعے کو رپورٹ کرنے کا پراسیس چل رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں خواجہ آصف لندن میں ٹرین میں سفر کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ ایک اسٹیشن پر اُترتے ہیں تو اُن کے پیچھے موجود ایک شخص اُنہیں گالیاں دیتا ہے اور اس دوران یہ کہتا ہے کہ "یہاں آپ پر چاقو سے بھی حملہ ہو سکتا ہے۔"

خواجہ آصف ایک دوست کے ہمراہ خاموشی سے پلیٹ فارم پر اُتر کر چلے جاتے ہیں جب کہ ویڈیو بنانے والا شخص اس میں اپنا چہرہ ظاہر نہیں کرتا۔

جمعرات کو خواجہ آصف لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن پہنچے جہاں اُنہوں نے اس معاملے سے متعلق مقامی پولیس کو شکایت درج کرا دی ہے۔

خواجہ محمد آصف نے پولیس کو ٹرین میں چھری سے قتل کی دھمکی اور ہراساں کرنے کے واقعے سے متعلق آگاہ کیا۔ واقعے کی تحقیقات لندن ٹرانسپورٹ پولیس کر رہی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی پاکستانی سیاست دان یا اہم شخصیت کو ملک سے باہر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سابق آرمی قمر جاوید باجوہ، وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت دیگر شخصیات بھی اس نوعیت کے واقعات کا سامنا کر چکی ہیں۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے خواجہ آصف کو دھمکی دینے کے معاملے پر کہا ہے کہ "اب بس بہت ہو گیا ہے۔"

کیا ملک سے باہر کسی کو دھمکی دینے پر کوئی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے؟ اس کے لیے وائس آف امریکہ نے قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔

'برطانیہ میں کارروائی کے لیے قوانین موجود ہیں'

برطانیہ میں مقیم ماہرِ قانون بیرسٹر امجد ملک بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے برطانیہ میں قانون موجود ہے مگر قانون تب ہی حرکت میں آتا ہے جب متاثرہ شخص اِس کی شکایت کرتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ 'کانسپریسی ٹو کمٹ کرائم' کے تحت اگر کوئی شخص نفرت کی بنیاد پر کسی کو گالی نکالتا ہے اس کی عزتِ نفس پر حملہ کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔

اُن کے بقول بعض کیسز میں جرم ثابت ہونے پر لوگوں کو اپنی ملازمت سے بھی محروم ہونا پڑا۔

'پولیس عینی شاہدین کی مدد لے سکتی ہے'

سابق انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس شوکت جاوید کہتے ہیں کہ دھمکی دینے والے شخص کے خلاف پاکستان اور برطانیہ کے ادارے قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ویڈیوز میں دھمکی دینے والے اور نفرت پھیلانے والے لوگوں کی شکلیں آ جاتی ہیں۔ اُس سے اُن کی شناخت ہو جاتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے تفتیش کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ کسی بھی واقعے کی ویڈیو ہی بطور ثبوت موجود ہو۔

اُن کے بقول تحقیقاتی ادارے عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کر سکتے ہیں اور دیگر طریقوں سے بھی شواہد اکٹھے کیے جا سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی تفتیشی ادارے کے لیے شواہد اکٹھے کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

'یہ قانونی سے زیادہ اخلاقی معاملہ ہے'

تجزیہ کار اور کالم نویس مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ اگر برطانوی قانون کسی بھی نفرت پھیلانے والے شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا تو ایسے شخص کے خلاف پاکستان میں بیٹھ کر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانونی پہلو سے زیادہ اخلاقی پہلو زیادہ ضروری ہے جس پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو سوچنا اور کام کرنا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نفرت پھیلانے والے افراد کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے تو سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اُس کی روک تھام کریں۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی 'ایف آئی اے' ذرائع کے مطابق خواجہ آصف کے معاملے پر تاحال کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی گئی ہے۔

ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بعض کیسوں کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہراساں کرنے والا شخص پاکستان کا شہری ہی نہیں جس پر پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔

تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کی رائے میں معاشرہ عدم برداشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن نفرت پھیلانے اور ہراساں کرنے کے واقعات زیادہ تر بیرونِ ملک پیش آتے ہیں۔ پاکستان میں تلخیوں کے باوجود اِس طرح کے واقعات کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔

بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ 'ہیٹرڈ ایکٹ' کے تحت ایسا نہیں ہے کہ جب تک کوئی ایک شخص کسی دوسرے شخص کو ہاتھ لگاتا ہے تو جب ہی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے بلکہ دھمکی دینے پر بھی شکایت کنندہ کی درخواست پر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ میں نفرت آمیز واقعہ ہونے پر شکایت کنندہ پولیس کو تحریری درخواست دیتا ہے جس پر پولیس شواہد اکٹھے کرتی ہے اور شکایت درج کر لیتی ہے۔

سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید کی رائے میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک اخلاقی ضابطہ بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ ضابطہ اخلاق سختی سے نافذ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اُس کو تربیت کر کے بنایا جا سکتا ہے۔

بیرسٹر امجد ملک سمجھتے ہیں کہ اگر کسی ایک شخص کی دوسرے شخص کے ساتھ کوئی مخاصمت ہے یا کوئی معاملہ ہے تو کوئی قانونی راستہ اختیار کیا جائے نہ کہ اُس کو ہراساں کیا جائے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر برطانیہ میں حملہ کرنے کا واقعہ سامنے آنے پر پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ حملہ کرنے والے افراد کے شناختی کارڑ اور پاسپورت بلاک کیے جائیں گے اور اُن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

سابق آئی جی پولیس شوکت جاوید کی رائے میں پاسپورٹ بلاک کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اگر ملک کے اندر بھی دیکھا جائے تو سیاسی قیادتوں، لوگوں اور عورتوں کے ساتھ نفرت آمیز رویے اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔ اگر ملک کے اندر اِن چیزوں پر قابو پایا جائے تو ملک سے باہر بھی یہ چیزیں خاصی حد تک کنٹرول ہو جائیں گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG