رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے


1۔ اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے امریکی سپریم کورٹ پر ایک تنقیدی ادارئے میں کہا ہے کہ یہ عدالت اپنی قانون کی بالادستی کی نگہبان کی حیثیت قائم نہیں رکھ سکتی، اگر اِس کے ججوں کاطرز ِعمل سیاست دانوں کی طرح ہو جائے۔ اِس کے باوجود ، اخبار کہتا ہے کہ کئی مثالیں ایسی ہیں جِن میں اِس عدالت کے ججوں کا طرزِعمل ایسا رہا ہے جِس کی وجہ سے ایک خود مختار اور غیر جانب دار ادارے کی حیثیت سے اُس کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔

اخبار کی نظر میں اس عدالت کے کئی فیصلوں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس عدالت اور سیاست کے درمیان اب بھی کوئی حدّ فاصل موجود ہے۔ اور ریپبلکن قیادت والی رین کوِسٹ عدالت کے وقت سے ہی یہ بات چلی آ رہی ہے جب اُس نے سنہ 2000 میں بُش بمقابلہ گور کے انتخابی مقدّمے میں بُش کے حق میں فیصلہ سُنایا تھا اگرچہ عدالت کا دایئں جانب کی طرف جھکاؤ رانلڈ ریگن کے دور صدارت ہی سے شروع ہوا تھا ۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی آئین بنانے والوں نے اس عدالت کے ججوں کو تا حیات اس لئے مقرر کیا تھا تاکہ اُنہیں طاقتور کو پچھاڑنے کا اختیار ہو اور انہیں سیاست دانوں کی حمائیت حاصل کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔یہ قانونی نظام اس طرح ترتیب دیا گیا تھا تاکہ وہ سیاست سے علٰحدہ رہےکیونکہ دونوں کا اتنا قریبی رشتہ ہوتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس عدالت کا معاشرتی پالیسی کے فیصلوں سے واسطہ رہتا ہے اور اس کے ذریعے جو قانون ترتیب پاتا ہے وہ لامحالہ طور پر سیاسی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت کے فیصلے نظریاتی خطوط پر بٹ جاتے ہیں اور ان پر جانب داری کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔
اخبار نے ججوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عدالت کے جواز کے بارے میں شبہات کو دور کرنے کے لئے اپنے آپ کو طرز عمل کے ایک ضابطے کا پابند بنایئں۔ اسی کی بدولت ان کے فیصلوں کو سیاست سے الگ اور نتیجتاًٍ با اعتبار سمجھا جائے گا۔

2۔’واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نگار یوجین رابن سن ایک کالم میں کہتے ہیں کہ اوبامہ انتظامیہ نے مزایل داغنے والے ڈرون طیاروں کے استعمال میں جو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے اس کی وجہ آسانی سے سمجھ میں آ تی ہے، یہ بلا ہواباز طیارہ دشمن کی سر زمین سے بہت اونچا اڑ کر اپنے ہدف کا سراغ لگا کر اس کو ملیا میٹ کر سکتا ہےاور اس میں امریکی جانیں خطرے میں نہیں پڑتیں۔ ڈرون کو الیکٹرانک طریقے سے چلایا جاتا ہے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ضرورت کے مطابق موڑا جا سکتا ہے۔ مثلاً جس گاڑی کا آپ تعاقب کر رہے ہیں اگر وہ مڑ جاتی ہے تو آپ بھی ڈرون کو اسی طرف موڑ سکتے ہیں۔ مضمون نگار کے مطابق ڈرون طیارے پر زیادہ تکیہ کرنا انتظامیہ کی انسداد دہشت گردی کی طویل وقتی پالیسی کا ایک حصّہ ہے۔ جنوری 2000 سے اب تک صرف پاکستان کے اندر 215 ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔ چونکہ یہ پروگرام خفیہ سمجھا جاتا ہے اس لئے اس کے کارپرداز اس کے لئے ڈھکی چھپی اصطلاحوں کا سہارا لیتے ہیں۔ صدر اوبامہ کے انسداد دہشت گردی کے مشیر جان برینن نے ایک حالیہ تقریر میں کہا تھاضروری نہیں کہ ہمارا بہترین حملہ ہمیشہ بھاری لشکروں کی مدد سے ہو،بلکہ بیرون ملک جو گروہ ہمارے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں ان کے خلاف ہدف بنا کر سرجیکل دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ مصنّف اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرجیکل سے یہاں مراد ڈرون پروگرام ہے، حالانکہ سرجری کا عام مقصد جان لینا نہیں بلکہ بچانا ہے۔

جہاں تک اس کے قانونی پہلو کا تعلّق ہے تو رابن سن کے بقول اس پر اوبامہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون واضح طور پر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ ان افراد کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو امریکہ پر حملے کرنے کی سازش کر رہے ہوں۔

رابن سن کے مطابق اس کا سب سے زیادہ پریشان کن پہلو اخلاقی اور فلسفیانہ ہے۔القاعدہ کے معروف لیڈروں کو جن سے امریکہ برسرپیکار ہے،قتل کرنا ایک بات ہے لیکن صورت حال بدل جاتی ہے جب آپ لیبیا میں ایک ایسی حکومت کے خلاف ڈرون استعمال کرتے ہیں جس سے امریکہ کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ رابن سن ان امور پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہین کیونکہ ڈرون طیاروں کے استعمال اور یقیناً برّی اور سمندری علاقوں میں روباٹک سازو سامان کی وجہ سے ٹیکنالوجی کا پھیلنا ناگزیر ہوگا، اور ہمیں یہ قدیم سبق دوبارہ سیکھنا پڑے گا کہ جنگ کرنے کا جو بھی طریقہ اپنایا جائے وہ خطرے یا نتائج سے خالی نہیں ہوتا۔

3۔’واشنگٹن ٹائمز‘ اخبار مصر میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں ایک ادرئے میں کہتا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ملک کی اسلام پسند جماعتیں نئی حکومت میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انٹرنیشنل پیس انسٹی ٹیوٹ کے رائے عامّہ کے جائزے کے مطابق تمام اسلام پسند پارٹیوں کو مجموعی طور پر متوقّع ووٹروں میں سے 19 فی صد کی حمائیت حاصل ہے جبکہ 25 فی صد سیکیولر پارٹیوں کے حق میں ہیں۔ باقیماندہ لوگ یا تو ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں یا پھر انہوں نے جواب نہیں دیا۔ امریکہ کے نقطہٴ نگاہ سے ، ظاہر ہے، سیکیولر پارٹیاں ترجیح کی مستحق ہیں۔ یہ تعلیم یافتہ اور متوسّط طبقہ اس خطے میں امن ، خوشحالی اور رواداری کو فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ اور امریکی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ مصر کے سیکیولر،اعتدال پسند اور مغرب دوست سیاسی طبقوں کو تقویت پہنچانےکے لئے سرگرمی سے کام کرے۔ سیکیولر قوتوں کے برعکس اسلام پسند پارٹیاں امریکہ کا کبھی ساتھ نہیں دیں گی۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG