’یو ایس اے ٹوڈے‘ ایک اداریےمیں کہتا ہے کہ امریکہ اورمیکسیکو کی سرحد پر اِمی گریشن سےمتعلقہ جرائم میں برابر کمی آتی جارہی ہے اور تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق غیر قانونی طور پر میکسیکو سے امریکہ نقلِ وطن کرنے والوں کی تعداد میں بھاری کمی واقع ہوئی ہے۔
2006ء میں بارڈر پیٹرول نے ایسے 11لاکھ لوگ پکڑے تھے۔ یہ تعدادگِر کر پچھلے سال چار لاکھ 36ہزار ہوگئی ہے اور بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ منتقل ہونے والوں کے مقابلے میں زیادہ لوگ میکسیکو منتقل ہورہے ہیں اور یہ رجحان میکسیکو میں آبادی میں گِرتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر بڑھتا جائے گا۔
ایک اور اہم بات یہ ہو رہی ہے کہ میکسیکو کی معیشت امریکی معیشت کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر میکسیکو کی معیشت اِسی طرح پھلتی پھولتی رہی تو یہ عجب نہ ہوگا اگر غیر ہنر یافتہ مزدوروں کے ضرورتمند امریکی آجر قانون سازوں سے یہ مطالبہ شروع کریں کہ وہ امی گریشن کے قوانین میں نرمی برتیں۔
کیلی فورنیا کے اخبار ’سیکرامینٹو بی‘ میں کالم نگار بین بوائے چُک اور پیا لوپیز امریکہ کے لیے اپنے قرضوں کی ادائگی کی اہمیت پر ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ امریکہ 143کھرب ڈالر کی قرضوں کی حد کو 13جولائی کو پہنچ گیا تھا۔اِس کے بعد سے امریکی خزانے کو دو اگست تک ملک کو نادہندہ کا الزام لگنے سے بچانے کے لیے غیر معمولی قدم اُٹھانا پڑے ہیں۔
کانگریس نے فروری 2010ء سے قرض کی حد نہیں بڑھائی ہے۔
کانگریس اگر اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرے تو پھر امریکی قومی قرضہ واپس دینے کے لیے کیا کرنا چاہیئے، جو اب چند دِنوں کی بات ہے۔
بعض ماہرین کی رائے ہے کہ اُس صورت میں وزیر خزانہ کو قرضے کی حد کو نظرانداز کرتے ہوئے قومی قرض ادا کرنے کے لیے جتنے بانڈز کی ضرورت ہو بیچنے چاہئیں۔ لیکن، مضمون میں اوبامہ انتظامیہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ بجائے آئینی بحران کھڑا کرنے کے، اُسے وہی کچھ کرنا چاہیئے جو 1995ء میں اس وقت کے وزیرِ خزانہ رابرٹ رُوبن نے کیا تھا جب ری پبلیکن اسپیکر نیوٹ گنگرِچ نے قرضے کی حد کا اِسی قسم کا بحران کھڑا کیا تھا۔ رُوبن نے کانگریس سے کہہ دیا تھا کہ اگر اُس نے کچھ نہ کیا تو سوشل سکیورٹی کے چیک بند کیے جائیں گے، بلکہ ارکانِ کانگریس کی تنخواہیں بھی روک دی جائیں گی۔
مضمون کے مطابق یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ ایوان کے ری پبلیکنز نے قرضے کی حد سے متعلق مطلوبہ ووٹوں کے ضابطے بدل دیےہیں۔
چناچہ، 1979ء میں بجٹ میں اخراجات کی حد مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ قرض کی حد بھی مقرر کردی گئی۔
لیکن جنوری میں اُسے منسوخ کردیا گیا اور جب اپریل میں 2012ء کا بجٹ منظور ہوا جس میں 162کھرب ڈالر کا قرض شامل تھا تو اُنھوں نے اس کی ادائگی کے لیے قرض کی حد 143کھرب سے نہیں بڑھائی جیسا کہ سابقہ کانگریس نے کیا تھا۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ صدر براک اوباما کی مقبولیت میں اگرکچھ کمی واقع ہوئی ہے تو دوسری جانب اُن کی سیاسی چندہ جمع کرنے کی صلاحیت میں یقینی طور پر کوئی فرق نہیں آیا۔ اور اِس سال کی دوسری سہہ ماہی کے دوران 86کروڑ ڈالر کی رقم جمع کی گئی ہے،یعنی 60کروڑڈالر کے ابتدائی ہدف سے کہیں زیادہ۔
یہ چندہ انتخابی مہم اور ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی دونوں کے لیے جمع کیا گیا ہے۔ اِس کے مقابلے میں ریپبلیکن صدارتی نامزدگی کے امیدوار مٹ رومنی نے اب تک ایک کروڑ اسی لاکھ ڈالر کی رقم جمع کر چکے ہیں۔ جبکہ دوسرے ری پبلیکن امیدوار کی جمع کردہ پونجی ابھی صرف 40لاکھ ڈالر ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے انتخابات کے مقابلے میں اب کی بار مسٹر اوباما خودمختار ووٹروں میں پہلے جیسا جذبہ پیدا نہیں کرسکے ہیں۔ اور اِس کی وجہ سے لبرل طبقے میں ایک حد تک تشویش بڑھ گئی ہے۔ اِس کے باوجود اب کے بار اُن کے انفرادی چندہ دینے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے، جو پچھلے انتخابی مقابلےسے کہیں زیادہ ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: