اخبار شکاگو ٹریبیون نے صدر براک اوباما کی جانب سے شام کے صدر اسد سے استعفے کے مطالبے کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ صدرکے پاس یہ مطالبہ نہ کرنے کے بہت سے معقول جواز تھے لیکن شام کی حکومت کی جانب سے خود اپنے ایک شہرپر حملے کے بعد جس میں درجنوں عام شہری ہلاک ہوئے مسٹر اسد نے آخر کار مسٹر اوباما کے لیے اس مطالبے سے احتراز کا کوئی چارہ کار باقی نہیں چھوڑا ۔اخبار لکھتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے شام کے تیل کی درآمدات پر پابندی ، امریکیوں پر دمشق حکومت کے ساتھ کاروبار کی ممانعت اور ملک میں اس کے اثاثے منجمد کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے جب کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے شام پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان میں سے کسی بھی اقدام سے اسد حکومت کا تختہ الٹے گالیکن مہذب قوموں کو اس دکھاوےکے لیے کہ شاید اسدحکومت کی طرف سے کوئی مثبت اقدام سامنے آجائے ،اب مزید انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ اخباراپنے موقف کے جواز میں لکھتا ہےکہ مسٹر اسد سے استعفےکے لیے بیرونی دنیا کے یک زباں مطالبے سے شام کی حز ب اختلاف کو یہ پیغام جا سکتا ہے کہ دنیا ان کے ساتھ ہے۔ اور بیرونی دنیا کے اس مشترکہ دباؤ سے فوج کے کچھ اعلی ٰ افسر یہ سوچنے پر مجبور ہو سکتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ڈکٹیٹر ان سب کو تباہ کر دے انہیں اس کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے ۔
اخباراپنا اداریہ سمیٹتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مسٹر اسد زیادہ سے زیادہ خونریزی کے ذریعے اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں لیکن یہ یقینی طور پر ایک قابل افسوس فتح ہو گی۔
اخبار نیو یارک ٹائمز نے نائین الیون کےحملوں میں ہلاک ہونےو الے لگ بھگ تین ہزار لوگوں کی یاد میں نیویارک میں بننے والی قومی یادگار کی تعمیر کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دن کے خوفناک واقعات نے ملک کو ہلا کر اور تبدیل کر کے رکھ دیا اور یہ کہ ہلاک ہونے والوں کو یقینی طور پر یاد رکھا جانا چاہیے لیکن اخبار لکھتا ہے کہ نائین الیون کے نام پرسولہ ایکڑ زمین پر حکومت کی طرف سے گیارہ ارب ڈالر کی لاگت کی اس عمارت کی تعمیر، جسے اب گراؤنڈ زیرو کہا جاتا ہے، ایک غلط مثال ہے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس عمارت کے ساتھ اس کے حامیوں کی جانب سے ہمیشہ ہی حب الوطنی کے جذبے کو منسلک کیا گیا ہے اور اس کی ایک بھر پورعلامتی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ یہ ایک بڑےجدید دفتر ہی کی ایک عمارت ہے جس کے پاس مالی وسائل کی شدید کمی ہے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ جب گراؤنڈ زیرو مکمل ہو گا تو اس میں ایک جدید ٹرین اسٹیشن شامل ہو گا جس کی لاگت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔جب کہ نائن الیون کی اصل یادگار جہاں سابق جڑواں مینار موجود تھے، ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تعمیر نو 2013 میں مکمل ہو گی جس میں دو اعشاریہ چھ ملین اسکوائر فٹ کا امریکہ میں اب تک تعمیر ہونےوالا مہنگا ترین دفتر شامل ہو گا جو اتنا بڑا ہو گا کہ نیو یارک جیسے شہر میں اتنی زیادہ لاگت پر تعمیر کیے گئےاتنے بڑے دفتر کی ضرورت نہیں ہے۔
آگے چل کر خبار لکھتا ہے کہ تشویسناک بات اس جگہ تک پہنچنے کے لیے پلوں پر ٹال ٹیکس میں اضافے کے حالیہ اعلانات ہیں جن کے نتیجے میں 2015 تک اس کی تعمیر کے بعد میل روم کے وہ ملازم جو کام پر پہنچنے کے لیے لنکن ٹنیل استعمال کر تے ہیں، نیو جرسی کے متوسط طبقے کےان لوگوں کو جو جارج واشنگٹن پل استعمال کرتے ہیں، اور سٹیٹن آئی لینڈ میں رہنے والے فائر فائٹرز اور پولیس افسروں کو اس جگہ آنے جانے پر اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ بھاری رقم خرچ کرنا پڑے گی ۔اور یوں اخبار لکھتا ہے کہ کس قدر افسوس کی بات ہو گی کہ نائین الیون کے نام پر نیو یارک اور نیو جرسی میں مڈ ل کلا س پر جو پہلے ہی مالی اعتبار سے شدید دباؤ کا شکار ہے، مزید اقتصادی بوجھ لاد دیا جائے گا۔ اخبار لکھتا ہےکہ گراؤنڈ زیرو پر ایک سفید ہاتھی پر اتنی بھاری رقم خرچ کرنے کی بجائے بہتر ہوتا کہ یہ رقم علاقے کے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کی انتہائی اہم مد پر خرچ ہوتی۔
اخبار ڈیلی نیوز نے امریکی بجٹ میں سائنسی ریسرچ پر سرمایہ کاری میں کمی کی کوششوں کو موضوع بناتے ہوئے اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ فروری میں ایوان کے ری پبلکنز نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے فنڈز میں ایک ارب سے لے کر 29 ارب ڈالر تک کی کٹوتی کی تجویز دی تھی جسے کانگریس نے مسترد کر دیا تھا لیکن اب جب قرض میں کمی کی بحث جاری ہے اس شعبے میں وفاقی سرمایہ کا ری میں کمی کے لیے یقینی طور پر نئی کوشیں ہو سکتی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ سائنس کے شعبے میں ریسرچ انسانیت کے لیےہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی بہت سود مند ہے ۔ اس ضمن میں اپنے موقف کی حمایت میں اخبار یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے محققین کی ایک حالیہ ریسرچ کے ابتدائی نتائج کا حوالہ دیتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ جینیاتی طور پر تیار کیے گئے T سیلز سے leukemia کے سیلز کےخاتمےمیں مدد ملی ۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس ریسرچ کے نتائج کو انتہائی نمایاں کامیابی قرار دیتے ہوئے ہارورڈ میڈیکل اسکول کے کلینیکل اینڈ ٹرانسلیشنل ریسرچ کے ڈین ڈاکٹر لی نیڈلر نے کہا ہے کہ اگرچہ اس سلسلے میں کسی دوا کے مارکیٹ میں آنے میں کچھ عرصہ تو لگے گا لیکن یہ کینسر کے علاج کے سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت ہے جس کے باعث ہر سال پانچ لاکھ امریکی لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔ا ور اخبار لکھتا ہے کہ پنیلوانیا کی یہ ریسرچ جن تین گرانٹس کی بدولت انجام پائی اس میں وفاقی حکومت کی طرف سے ایک بڑی گرانٹ شامل تھی ۔ اسی طرح اخبار طبی شعبے میں نمایاں کامیابیوں کے حوالے سے نیو یارک شہر کی کولمبیا ، یا راک فیلر یونیورسٹی کی کاوشوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان اداروں کو بھی وفاقی حکومت کی طرف سے ایسے ہی فنڈز ملا کرتے تھے۔
اخبار لکھتا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ ہم کفایت شعاری کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں لیکن زندگی بچانے والی ایسی تحقیقات کے لیے جو ہماری معیشت کی افزائش میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہوں فنڈز میں کمی کوئی مناسب اقدام نہیں ہے اگر کمی ہی مقصود ہے تو بہت سے ایسے شعبے موجود ہیں جہاں سائنس کے شعبے سے بہت پہلے کٹوتیاں ہونی چاہییں۔