رسائی کے لنکس

افغان امن عمل کی بحالی، تمام فریق پر بڑھتا ہوا دباؤ


اس ہفتے کے اوائل میں افغانستان اور پاکستان کے لئے چین کے نمائندہ خصوصی، ڈینگ ژیجون نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لئے دونوں ممالک کا دورہ کیا

موسم سرما میں افغانستان میں جاری جنگ کی شدت میں کمی کے امکانات نے عالمی اور علاقائی شراکت داروں کو امن مذاکرات کی بحالی کے لئے نئی جدوجہد کا حوصلہ دیا ہے۔

اسلام آباد سے ’وائس آف امریکہ‘ کے آیاز گل کی رپورٹ کے مطابق، اس سال طالبان کی قیادت میں باغیوں نے 2001ء کے بعد سے پہلی بار زیادہ تیزی سے پورے افغانستان میں کاروائیاں کیں۔

لیکن، میدان جنگ کی صورتحال پر بہت سوں کو حیرت نہیں ہوئی، کیونکہ افغان سیکورٹی فورسز کو پہلی بار کسی بین الااقوامی فوجی امداد کے بغیر تنہا ہی ایسی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

غیر ملکی مالی امداد میں کمی کے بعد آنے والے دنوں میں باغیوں کے خلاف افغان فوجی مہم کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

تاہم، اس تشویش نے کلیدی شراکت داروں، اقوام متحدہ، امریکہ اور چین کو مذاکرات کی ضرورت پر مجبور کر دیا ہے۔ جمعہ کو افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے سربراہ نیکولس ہائسن نے مذاکرات کی کوششوں پر بات چیت کے لئے اسلام آباد کا دورہ کیا اور اعلیٰ پاکستانی حکام سے ملاقات کی۔

اقوام متحدہ کے ترجمان، ڈومنک میڈلے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس بات چیت کا موضوع افغانستان میں امن کے امکانات تھے اور اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ کس طرح وسیع علاقائی تعاون کو فروغ دیا جائے۔

اس ہفتے کے اوائل میں افغانستان اور پاکستان کے لئے چین کے خصوصی نمائندے، ڈینگ ژیجون نےافغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لئے دونوں ممالک کا دورہ کیا اور اسلام آباد میں مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے سیاسی منظرنامے میں طالبان بھی ایک اہم قوت ہیں اور افغانستان میں پائیدار امن کے لئے بات چیت ہی واحد راہ ہے۔‘

چینی نمائندے نے خبردار کیا کہ امن مذاکرات گوناگوں مسائل اور چیلنجوں سے بھرے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر تمام فریق تیار ہوں تو چین بات چیت کے لئے سہولت فراہم کرنے کو تیار ہے۔

انھوں نے کہا کہ پرامن افغانستان چین کے سرحدی خطےشیانکیانگ میں استحکام کا باعث بنے گا اور افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرے گا۔

منگل کو کابل میں بات چیت کرتے ہوئے افغانستان میں نیٹو مشن کے سربراہ امریکی کمانڈر جنرل جون کمبل نے تشدد کے خاتمے کے لئے مشترکہ علاقائی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ باغیوں کے جاری حملے اور ان کے درمیان تقسیم نئے چیلنجز کو جنم دے سکتی ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان، افغانستان، چین ، امریکہ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے ممالک بات چیت کے لئے طالبان کو تیار کر سکتے ہیں۔ اگر وہ تقسیم ہوگئے تو یہ کچھ مشکل ہوجائے گا اور کچھ وقت لے گا۔ لیکن، میں دوبارہ کہوں گا کہ امن مذاکرات جس نکتے پر رکے تھے وہیں سے مفاہمتی عمل دوبارہ شرع کرنا چاہئے۔

افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے لئے صدر اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے، درخواست کی تھی کہ وہ بات چیت کے آغاز کے لئے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

اس درخواست کے بعد، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان 14 سال کے عرصے میں پہلی بار سرکاری سطح پر اس سال جولائی میں بات چیت شروع ہوئی تھی جس کے بعد اشرف غنی کو افغانستان میں مبینہ طور پر عدم استحکام کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین اور خود اپنی ہی مخلوط حکومت کے ارکان کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

تاہم، جنرل کیمبل نے اشرف غنی کی جانب سے امن کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کا دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان تک پہنچ کر انھیں امن عمل کا حصہ بنانا چاہتے تھے اور وہ اس سلسلے میں بہت محتاط تھے جبکہ لوگ انھیں اس سلسلے میں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، جن سے معاملات سنوارنے میں کوئی مدد نہیں ملی اور اس سے جو ہوا وہ یہی تھا کہ طالبان کو اس سے فائدہ ہوا جبکہ ان کی اپنی مخلوط حکومت نقصان میں رہی۔

پاکستان کی پشت پناہی میں چلنے والا افغان امن عمل پہلے مرحلے کی بات چیت کے چند ہی روز بعد اس وقت تعطل کا شکار ہوگیا، جب یہ انکشاف ہوا کہ طالبان لیڈر ملا عمر دو سال پہلے انتقال کرگئے تھے۔ اس وقت سے طالبان باغیوں نے اپنے حملوں میں شدت پیداکی ہے اور کچھ عرصے کے لئے گزشتہ ستمبر میں شمالی شہر قندوز پر قبضہ بھی کرلیا تھا۔

طالبان کے ایک منحرف دھڑے نے جو کہ ملا اختر منصور کی جانشنی کا مخالف تھا حال ہی میں ملا رسول اخوند کو باغیوں کی قیادت کے لئے چنا ہے۔ تاہم، ملا منصور کے دھڑے نے اس تقسیم کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ طالبان آج بھی متحد ہیں۔

طالبان کے حالیہ حملوں کی شدت نے افغان رہنماؤں پر مستقبل مٰیں کسی بھی امن اور مفاہمت کی کوششوں سے پاکستان کو دور رکھنے کے لئے عوامی دباؤ بڑھا دیا ہے۔اور ساتھ ہی، پاکستان پر افغانستان کی جانب سے الزامات میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ پاکستان طالبان سے تعلق ختم کرنے کے لئے تیار نہیں، جبکہ اسلام آباد ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

سابق افغان وزیر داخلہ عمر داودزئی کا اصرار ہے کہ کسی دوسرے ملک کی بجائے اقوام متحدہ کی مدد سے ہونے والی بات چیت ہی تنازعے کو حل کرسکتی ہے۔

امن عمل میں پاکستان کے کردار پر بڑھتی ہوئی افغان مخالفت میں اسلام آباد خاموش ہے۔ لیکن، ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پاکستان نے پس منظر میں رہ کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

لیکن، یہ حقیقت ہے کہ وسیع مقامی مخالفت کے باوجود، افغان سفارتی ذرائع کہتے ہیں کہ بغاوت کے خاتمے کے لئے کابل اسلام آباد کے ٹھوس اقدام کا منتظر ہے، تاکہ صدر اشرف غنی آئندہ ماہ پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی افغان کانفرنس میں شرکت کے قابل ہو سکیں۔

طالبان اشرف غنی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایسی حکومت قرار دیتے ہیں جس کے کئی منتظم ہیں اور جو امن کے لئے کوئی ایک پالیسی تشکیل دینے کے قابل نہیں۔

طالبان نے حال ہی میں ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ہم امن چاہتے ہیں جو کہ ہمارے لوگوں اور ملک کے لئے بہتر ہو، اور ساتھ ہی اس مطالبے کو دہرایا کہ تمام غیر ملکی افواج کے انخلا اور اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر امن ممکن نہیں۔

XS
SM
MD
LG