امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اتوار کو ایک طرف پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے امریکی دورے کا پہلا باضابطہ دن شروع ہوا تو وہیں پاکستانی امریکیوں کی ایک بڑی تعداد شدید گرمی کے باوجود سڑکوں پر نکلی۔
صبح جب عمران خان پاکستان کے سفارت خانے میں پاکستانی نژاد امریکن کاروباری شخصیات، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے وفود سے ملاقاتیں کر رہے تھے اسی دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے منسلک پاکستانی نژاد امریکی مظاہرین کیییٹل ہل پر جمع تھے۔
احتجاج کے منتظم ریحان عبادت نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اقوام متحدہ اور تمام انسانی حقوق کی تنظیموں تک یہ پیغام پہنچے کہ وہ پاکستان کو کسی بھی قسم کی کوئی معاشی امداد نہ دیں کیونکہ اس امداد کا ہمیشہ غلط استعمال ہوا ہے۔
دوسری طرف نیویارک، نیو جرسی، میری لینڈ، ورجینیا سمیت دیگر شہروں اور ریاستوں سے واشنگٹن پہنچنے والے افراد اپنے خاندانوں سمیت کیپیٹل ون ایرینا کے باہر جمع ہوتے رہے۔
"میری عمر 71 برس ہے۔ میں یہاں گرمی اور پسینے میں اپنے خان کا انتظار کر رہا ہوں."
"عمران خان کو دیکھنا چاہتے ہیں یہ ایک خواب ہے جو پورا ہو گا."
"مل تو نہیں سکیں گے ان سے لیکن بس انہیں دیکھنے آئے ہیں."
"میں ان کا بہت بڑا فین ہوں میرا تعلق سندھ سے ہے ان کی سپورٹ میں یہاں آیا ہوں."
اسٹیڈیم کے داخلی دروازوں پر کھڑے لوگ گرمی اور حبس کے باوجود جوش میں تھے۔
ایرینا کی انتظامیہ نے داخلی دروازے دوپہر دو بجے کھولنے کا اعلان کر رکھا تھا اور پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیاد پر نشستیں دستیاب تھیں۔ پولیس نے لوگوں کے جمع ہونے کے علاقے کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا تھا۔
صبح 11 بجے سے ایرینا میں جمع ہونے والوں میں سے بیشتر نے سورج کی تپش سے بچنے کے لیے آس پاس کے کافی شاپس اور ریسٹورنٹس میں پناہ لی جبکہ باہر کھڑے 'منچلے' تحریک انصاف۔ پاکستان کی فوج اور عمران خان کے حق میں زور و شور سے نعرے بازی کرتے رہے۔
ایک مقام پر لوگوں نے پاکستان کا قومی ترانہ بھی پڑھا، ڈھول بجانے والا بھی ایرینا کے باہر حاضرین کا لہو گرماتا رہا۔
داخلی دروازوں پر کھڑے اہلکار اور ایرینا کے آس پاس کھڑی پولیس عوام کے جوش و خروش میں کوئی خلل نہ ڈالتے ہوئے خاموشی سے ان کی نگرانی کرتے رہے۔
ایسے میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں فرسٹ ایڈ اور ایمبولینسز بھی وقتاً فوقتاً ایرینا کے ارد گرد موجود تھے اور گرمی سے بے حال ہونے والے بچوں اور چند بوڑھے افراد کو فوری طبی امداد دیتے رہے۔
بدنظمی پر شرکا کو پریشانی
تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ اس ایونٹ پر جمع ہونے والے افراد کو ایرینا کے باہر اور اندر منظم کرنے کے لیے 250 رضاکار مقرر کیے گیے ہیں۔ لیکن وہاں گھنٹوں انتظار کرنے والے افراد کو جب ایرینا کے دروازے کھلنے پر بھی اندر جانے میں دشواری ہوئی تو انہوں نے بدنظمی کی شکایت کی۔
کینیڈا سے اس تقریب میں شرکت کے لیے آنے والے شیر خان نے کہا کہ "بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں کوئی رضا کار موجود نہیں، اگر ہمیں خود موقع دیا جاتا تو اپنے طور پر قطار بنا لیتے۔"
ورجینیا سے آنے والی ندرت صدیق نے کہا کہ تین گھنٹے سے انتظار کر رہے ہیں۔ ان کو قطار پہلے بنانی چاہیے تھی اب تک صرف ایک دروازہ کھلا ہے سب وہاں سے فرداً فرداً داخل ہوں گے کوئی نظم و ضبط نہیں ہے۔
اسٹیڈیم کے اندر لوگوں کو اپنی مرضی کی نشستیں نہ ملنے پر بھی شکایت رہی۔
ایک موقع پر ایونٹ کے نگران اور اوورسیز پاکستانیوں کے لیے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی زلفی بخاری بھی اسٹیڈیم کے باہر آئے اور داخلی دروازوں پر موجود مجمع کا جائزہ لیا۔
اس موقع پر زلفی بخاری نے بتایا کہ "انتظامیہ کی غلطی نہیں ہے کانسرٹس کے موقع پر بڑا کراوڈ ہو تو ایسی ہی چیزیں ہوتی ہیں۔"
منتظمین نے ایونٹ کے بعد ایک پیغام میں لوگوں کی شکایات تسلیم کی ہیں اور بدنظمی پر لوگوں سے معذرت بھی کی ہے.
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رضاکاروں کے ناظم جنید بشیر نے ایک دلچسپ حقیقت بتائی کہ اس ایونٹ کے لیے ڈھائی سو رضاکار رجسٹرڈ کیے گئے تھے۔ سب کو 11 بجے پہنچنے کا کہا گیا تھا۔ ان کے لیے اسٹیڈیم میں داخلے کا الگ دروازہ تھا لیکن باہر 500 سے زائد افراد یہ شور مچانے لگے کہ وہ بھی رضا کار ہیں.
شام پانچ بجے ایرینا کے گیٹ بند ہوئے تو اس وقت بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد باہر موجود تھی جسے اندر نہیں جانے دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو قریبی شہروں سے آئے تھے اور دیر سے پہنچے تھے۔ ادھر دن بھر گرمی اور دھوپ کے ستائے ہزاروں افراد ایرینا میں اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔
عمران خان کے خطاب کے دوران احتجاج
ایک جانب وزیر اعظم عمران خان خطاب کے لیے ایرینا میں داخل ہو رہے تھے تو دوسری جانب بعض پاکستانی امریکی شہری احتجاج کے لیے وائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے۔
اس مظاہرے کا انتظام پاکستان پراگریسیو الائینس اور پاکستان فورم فار ریسٹوریشن فار ڈیموکریسی نے کیا تھا۔
امریکن پاکستانیوں کی بنائی ہوئی یہ نجی اور غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اور جمہوری اقدار کے حق میں امریکہ میں آواز بلند کرنا چاہتی ہیں۔
مظاہرے میں شریک افراد نے سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، محسن داوڑ اور علی وزیر کی رہائی کے مطالبے پلے کارڈز پر لکھ رکھے تھے۔
ان مظاہرین نے خدشے کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ایک ایسی تبدیلی آ رہی ہے جو آئندہ نسلوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
بالٹی مور سے آنے والی پاکستان پراگریسیو الائنس کی صدر ڈاکٹر غزالہ قاضی نے کہا "عدلیہ اور میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ "ایسا لگتا ہے جلد پاکستان ایک فسطائی فوجی ریاست بن جائے گی ہمیں اس پر شدید تشویش ہے۔"
شمالی کیرولائنا سے آئے توقیر میر نے بتایا کہ "پاکستان میں جمہوری قوتوں کے خلاف عصر حاضر میں جو مہم چل رہی ہے ایک خلائی مخلوق کی طرف سے اس کی مخالفت کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔"
ورجینیا کے رہائشی خواجہ کاشف کا کہنا تھا "ہم میوزیکل شو ارینج کرنے یا اٹینڈ کرنے نہیں بلکہ ملک کے لیے یہاں آئے ہیں۔"
وائٹ ہاؤس کے باہر نعرے بازی کرنے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد ان لوگوں نے ایرینا کا رخ کیا۔ ایسے میں وائٹ ہاؤس سے ایرینا کی طرف جاتے ہوئے راستے پر کچھ گاڑیاں ایک ریلی کی شکل میں جاتی دکھائی دیں۔ گاڑیوں پر پاکستان مسلم لیگ ن سے وابستگی پینٹ کی گئی تھی اور نوجوان بلند آواز میں مسلم لیگ ن کے نغمے لگائے دھیمی رفتار میں ایرینا تک پہنچ رہے تھے۔
ایرینا کے باہر موجود لوگ جو دروازے بند ہونے کے باوجود وہاں سے ہٹنے کو تیار نہیں تھے، انہوں نے سابق حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور پاکستان میں لاقانونیت کے بارے میں لکھے پلے کارڈز پکڑے ان لوگوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان کے خلاف نعرے بازی کی۔ مخالفین میں کشیدگی بڑھی تو پولیس نے مظاہرین کو وہاں سے چلے جانے کا کہا۔ ڈاکٹرغزالہ قاضی کہتی ہیں "اگرچہ ہماری تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم تھی، لیکن میرے لیے یہ ذہنی دباؤ کا باعث ہے کہ ہمارے لوگ اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات کا شعور نہیں رکھتے۔"
شدید گرمی کے باوجود بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد
ڈی سی کے چائنا ٹاؤن کی حدود میں اتنے پاکستانی نژاد امریکی ایک دن میں جمع نہیں ہوئے جتنے اتوارکے روز وہاں موجود تھے۔
آس پاس کی کافی شاپس اور ریسٹورانٹس پر کام کرنے والے لوگ اس غیر معمولی رش کی ضروریات مستعدی سے پوری کرنے میں کوشاں رہے۔ وہاں سے گزرنے والے زیادہ تر افراد اس بات پر حیران تھے کہ آج ایرینا کے باہر اتنے شدید گرم دن پر اتنے لوگ کیوں جمع ہیں۔
"کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ آج یہاں کس کا کانسرٹ ہے جسے دیکھنے یہ لوگ آئے ہیں؟" ایرینا کے باہر روایتی ملبوسات زیب تن کیے بچے سنبھالتی ہوئی خواتین کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے ایک امریکی سیاہ فام جوڑے نے مجھ سے یہ سوال کیا۔ اور جب انہیں پتہ چلا کہ یہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ہیں جو ماضی میں پاکستانی کرکٹر تھے اور یہاں لوگوں سے خطاب کریں گے تو انہوں نے اندر جا کر انہیں دیکھنے میں دلچسپی کا اظہار یہ پوچھ کر کیا "داخلہ مفت ہے کیا؟"
"عمران خان اس ایونٹ کے لیے پیسے کے معاملے میں ملوث نہیں ہونا چاہتے تھے انہوں نے منع کیا تھا۔" جنید بشیر نے مفت داخلے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا مگر ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ "ایونٹ کامیاب تھا بیس ہزار افراد کی گنجائش والے سٹیڈیم میں ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی اور دروازے بند ہونے کے بعد باہر بھی تین سے چار ہزار افراد موجود تھے۔"
وزیر اعظم عمران خان کی امریکہ آمد سے ایک دن پہلے یہاں پہنچنے پر شاہ محمود قریشی نے جب صحافیوں کو ان کی امریکہ میں مصروفیات سے آگاہ کیا تو وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس خطاب میں عمران خان "نئے پاکستان کا ویژن شئیر کریں گے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان سرمایہ کار دوست پالیسی کے ذریعے کاروباری طبقے کے لیے مزید آسانیاں پیدا کرے گا۔
کیپیٹل ون کے اس ایرینا میں بیٹھے افراد کو وزیر اعظم عمران خان نے لگ بھگ دو گھنٹے دیے جس میں سے تقریباً 50 منٹ وہ اس مجمع سے مخاطب تھے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی نوعیت کے اس پہلے خطاب میں پاکستانی نژاد امریکیوں کو پاکستان، مغربی دنیا، مذہب اسلام اور بادشاہت کی تاریخ کا ایک لیکچر دیا اور پھر ماضی کے حکمرانوں کی کارستانیوں کے شکوے کیے۔