امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران اُن پر افغان امن عمل سے متعلق ٹھوس اقدامات کرنے سمیت عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیاں روکنے کی مؤثر اور پائیدار کوششوں کو جاری رکھنے پر زور دیا جائے گا۔
عہدیدار نے یہ بات پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے قبل جمعے کو واشنگٹن میں صحافیوں سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بریفنگ دیتے ہوئی کہی۔
امریکی عہدیدار نے اس امید کا اظہار کیا کہ عمران خان کا دورہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر کرنے کا ایک موقع ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم 21 سے 23 جولائی تک امریکہ کے دورے پر ہوں گے جس کے دوران وہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔
امریکی حکومت کے عہدیدار کے بقول دونوں ممالک کے رہنماوں کے درمیان وائٹ ہاوس میں ہونے والی ملاقات کے دوران انسداد دہشت گردی، دفاع، توانائی اور تجارت سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
عہدیدار نے کہا " ہم پاکستان کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی پالیسی تبدیل کرتا ہے تو پائیدار بنیادوں پر تعلقات استوار کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔
امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو اس دورے کی دعوت دینے کا مقصد پاکستان کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے ۔
انہوں نے افغان امن عمل میں پاکستان کی طرف سے کی جانے والی ابتدائی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ " ہم افغان امن عمل کے اہم مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور اس بات کے خواہاں ہیں کہ پاکستان، طالبان کو مستقل جنگ بندی، افغان دھڑوں بشمول افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرنے پر زور دے۔
امریکی عہدیدار نے 2018 میں امریکہ کے لیے سکیورٹی کی مد میں پاکستان کو دی جانے والی امداد بحال کرنے کے سوال پر کہا کہ پاکستان کو معطل کردہ امداد پر تاحال اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان کالعدم لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے گروپوں سے متعلق امریکہ کے تحفظات دور کردے تو معطل امداد کو جزوی طور پر بحال کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔
امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان نے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کچھ اقدامات کیے ہیں، تاہم امریکہ اس صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے کہ یہ اقدامات کتنے پائیدار اور ناقابل واپسی ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کی سول و عسکری قیادت اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ پاکستان کی کسی عسکریت پسند یا دہشت گرد گروپ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
حال ہی میں پاکستان کے حکام نے کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے دوران پاکستان میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ زیر بحث آنے کے سوال پر امریکی عہدیدار نے کہا کہ یہ معاملہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی عوام کے لیے نہایت اہمیت حامل ہے۔
امریکی عہدیدار نے مزید کہا کہ ڈاکٹر شکیل کو غیر منصفانہ طور پر پاکستان میں قید رکھا گیا ہے، پاکستان انہیں رہا کر کے بین الاقوامی برادری میں اپنے قائدانہ کردار کا اظہار کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ " اعلیٰ سطح پر پاکستان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھا چکے ہیں، ہم ان کی رہائی تک ایسا کرتے رہیں گے۔ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرے اور امکان ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان اس معاملے پر بھی بات ہو۔
ڈاکٹر آفریدی کے بارے میں امریکی عہدیدار کے بیان پر پاکستان کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کا معاملہ سیاسی نہیں بلکہ یہ ایک قانونی معاملہ ہے جو عدالت کے دائر کار میں آتا ہے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے القاعدہ کے روپوش سربراہ اسامہ بن لادن کی مبینہ طور پر ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کرنے میں امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی 'سی آئی اے' کی معاونت کی تھی۔
مئی 2011 میں امریکی کمانڈوز کی خفیہ کارروائی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکام نے شکیل آفریدی کو حراست میں لیا تھا اور بعد ازاں خیبر ایجنسی کی ایک عدالت نے اُنہیں ریاست مخالف سرگرمیوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 33 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
بعد ازاں شکیل آفریدی کی اپیل کی سماعت کرنے والی ایک عدالت نے اُن کی سزا کم کر کے 23 سال کر دی تھی جس کےخلاف اپیل پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔