مارگلہ پہاڑیوں کی آغوش میں آباد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک تفریحی مرکز دامن کوہ میں مغلیہ انداز کے ایک شہزادے ’تسلیم‘ نے اپنی ایک چھوٹی سی 'سلطنت' قائم کررکھی ہے۔ اس کی کل سلطنت لکڑی کے تختوں پر بچھے نرم و گدازقالینوں پر مشتمل ہے۔ جس پر ساڑھے تین من وزنی لمبا چوڑا شاہی طرز کا ایک قدیم پان دان بھی رکھا ہے اور دیو ہیکل ٹائپ کا اگالدان بھی جو خالص پیتل کا ہے۔ جبکہ لکڑی کے پان دان پر پیتل کی منقش چادر مڑھی ہوئی ہے جس پر جب دھوپ پڑتی ہے تو وہ سونے کی طرح چمکنے لگتاہے۔
جی ہاں!!! کہنے کو تو یہ پان کی ہی دکان ہے مگر اس کا انداز، ڈیزائن اور تراش خراش دیکھنے والوں کو مغلیہ دور کے شہزادوں کی یاد دلاتی ہے۔ چم چماتی گوٹے دار اور طوطے کے رنگ جیسی ہری قمیص، اس کے نیچے مخمل کا بنا اودئی رنگ کا لمبا ساکرتا، مخصوص کونوں والی ٹوپی، چوڑی دار پاجامہ، گلے میں قدیم شاہی طرز کے سفید اور چمکدارموتیوں کی لڑیوں میں پروئے زیور ات، پیتل کی سنہری تھالی میں رکھی پان کی گلوریاں، نرم و ملائم کپڑے کے سلیم شاہی جوتے۔۔۔ بے شک مغلیہ دور کے شہزادوں کے لباس ہوں گے مگر دامن کوہ میں موجود چوبیس پچیس سال کے نوجوان تسلیم کا لباس بھی کسی طرح شہزادوں سے کم نہیں۔
پھر پیتل کے بنے اگالدان، گھڑونچی، جسے مٹکی یا لٹیا بھی کہا جاتا ہے اس میں بھیگے پان کے پتے، گیندے کے پھول، شینیل اور زرری گوٹے سے بنی شاہی کرسی۔۔۔ جس پر بیٹھ کر فوٹو کھنچوانے میں سیاح فخر محسوس کریں۔۔۔ سب کچھ ایک ایسا منظر تخلیق کرتے ہیں کہ جو پان نہ بھی کھاتا ہووہ بھی یہ دلکش دکان دیکھ کر پان کھانے پر مجبور ہوجائے۔
اس دکان کے اصل خالق تسلیم کے والد ہیں جنہوں نے آج سے تین سال قبل لاہور میں یہ دکان کھولی تھی۔ دکان کا نام 'رانا بھائی شاہی پاندان والا' ہے ۔ تسلیم نے وی او اے کو بتایا کہ اسے یہ خیال آٹھ سال پہلے آیا تھا۔ دامن کوہ میں دکان قائم ہوئے تین سال ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل یہ دکان لاہور کے اسٹیڈیم روڈ پر تھی۔ حکومت نے انہیں تین سال قبل یہاں جگہ دی اور تب سے یہ دکان قائم ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اس جگہ کے عوض ان سے کچھ وصول نہیں کرتی کیوں کہ اس دکان سے قدیم ثقافت کو فروغ مل رہاہے۔
دکان پر نصب بورڈ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور خوب صورت ترین پاندان ہے جس کا وزن ساڑھے تین من ہے۔ دکان میں چند مشہور شخصیات کی تصاویر بھی لگی ہوئی ہیں جن کے بارے میں تسلیم کا کہناہے کہ انہوں نے دکان پر آکر ان کے پان سے لطف اٹھایاتھا۔ ان شخصیات میں مشہور گلوکار، سیاستدان، اداکار، اداکارائیں سب شامل ہیں۔
تسلیم کا کہنا ہے کہ دکان کا انداز اس قدر مقبول ہے کہ اکثر شادی کے پنڈالوں میں لوگ انہیں اپنی دکان لگانے کی دعوت دیتے ہیں۔ اب تک بیشتر شادیوں میں ان کی دکان بالکل اس انداز میں سج چکی ہے جہاں مہمانوں کو مفت پان کھلائے جاتے ہیں جبکہ ادائیگی میزبان کی جانب سے کی جاتی ہے۔
تسلیم نے بتایا کہ وہ اعلیٰ کوالٹی کا خاص قسم کے پان کا پتہ خریدتے ہیں۔ جس کی نشانی یہ ہے کہ جس وقت پان کو طے کیا جاتا ہے اس وقت پان چٹخنے کی آواز آتی ہے جبکہ عام پان میں ایسا کم ہی ہوتا ہے۔تسلیم کہتے ہیں کہ پان کا یہ خاص پتہ مہنگا ہوتا ہے اسی لئے وہ اپنا پان 25 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔
اس دکان کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے ایک کونے میں پاکستانی ثقافت سے متعلق کچھ چیزیں رکھی ہیں ۔ ان میں ایک ماڈل میں ایک پگڑی اور شلوار کرتے میں ملبوس ایک دیہاتی ہاتھ کی مشین پر جانوروں کاچارہ کاٹ رہا ہے۔
دکان پر رکھے کچھ اور ماڈلوں میں گھوڑا گاڑی پر سوار ہیر اور رانجھا، کچے مٹکے پر دریائے چناب میں تیرتی سوہنی اور اس کی محبت ماہیوال، تانگے میں بیٹھی شٹل کاک برقعہ پوش خواتین۔۔۔اور اسی طرح کی کئی دوسری چیزیں وہاں آنے والوں کی دلچسپی کا مرکز بن جاتی ہیں۔
دامن کوہ کی سیر پرآئے ہر عمر کے لوگ تسلیم کی دکان پر ضرور نظر ڈالتے ہیں۔ یہاں آپ کو چاندی کے ورق میں لپٹی الائچی بھی مل جائے گی۔ چھوٹی سی ڈبیہ میں چاندی کے ورق چڑھے الائچی کے چند دانے۔۔۔ اورگلقند ، گلاب کی پتیوں اور خوشبو میں بسے پان بھی۔۔۔ یہاں آنے والوں کے لئے ایک ایسی دلکشی ہیں جسے لوگ ایک لمبے عرصے تک بھلانہیں پاتے۔