اسرائیلی حکومت اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم 'حماس' کے درمیان طے پانے والے قیدیوں کے تبادلے کے خلاف کئی اسرائیلی شہریوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔
فلسطینیوں کے مارٹر حملوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی شہریوں کےلواحقین کی جانب سے اسرائیلی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں میں اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیون کے تبادلے کے معاہدہ پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست گزاران کے وکلاء پیر کو عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کریں گے۔
مصر کی کوششوں سے گزشتہ ہفتے طے پانے والے معاہدے کے تحت گزشتہ پانچ برس سے حماس کی تحویل میں موجود اسرائیلی فوجی گیرالڈ شالیث کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید ایک ہزار سے زائد فلسطینی باشندے رہا کیے جارہے ہیں۔
یاد رہے کہ ماضی میں اسرائیلی عدالتیں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے خلاف دائر کی گئی اپیلیں مسترد کرتی آئی ہیں۔
فلسطینی مزاحمت کاروں نے جون 2006ء میں کیے گئے ایک سرحد پار حملے کے دوران گیرالڈ شالیث کو اغوا کرکے غزہ منتقل کردیا تھا۔ مغوی فوجی کی طویل گمشدگی اسرائیل – فلسطین تنازعہ کا ایک اہم نکتہ رہی ہے۔
فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت شالیث کی رہائی کے بدلے کل 1027 فلسطینی قیدیوں کو دو مرحلوں میں رہا کیا جائے گا۔
دریں اثنا اسرائیلی حکومت نے ان 477 فلسطینی قیدیوں میں سے بیشتر کو کو صحرائے نیجیو کے ایک قیدخانے منتقل کردیا ہے جنہیں معاہدے پر عمل درآمد کے پہلے مرحلے میں منگل کو رہا کیا جارہا ہے۔ ان افراد کی رہائی کے بعد حماس مغوی اسرائیلی فوجی کو مصر کے حوالے کرے گی جسے بعد ازاں اسرائیل منتقل کردیا جائے گا۔
معاہدے کے دوسرے مرحلے میں باقی ماندہ 550 فلسطینی قیدیوں کوآئندہ دو ماہ کے عرصے کے دوران رہا کیا جائے گا۔
رہا کیے جانے والے بعض فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلیوں کےخلاف دہشت گرد حملوں کی سازش کرنے اور ان میں ملوث ہونے جیسے سنگین الزامات بھی ہیں جبکہ ان میں 280 سے زائد ایسے قیدی بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی عدالتوں سے عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔
معاہدے کے تحت رہا کیے جانے والے 100 سے زائد قیدیوں کو اسرائیل "پکا دہشت گرد"گردانتا ہے۔
دریں اثنا امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا ہے کہ مشرقی وسطیٰ تنازعہ میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے بین الاقوامی طاقتوں کے نمائندے امن مذاکرات کی بحالی کے لیے 26 اکتوبر کو یروشلم میں فلسطینی اور اسرائیلی مذاکرات کاروں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔
مشرقِ وسطیٰ تنازعہ پر ثالثی کرنےو الے چار فریقی گروپ میں امریکہ، روس، اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔