رسائی کے لنکس

میانمار میں بے گھر روہنگیا کی مشکل صورتحال


وزیرِ اعلیٰ مونگ مونگ اون نے کہا کہ روہنگیا لفظ استعمال کرنے کا مطلب نسلی دعویٰ کرنا ہے جس میں علاقہ بھی شامل ہے اور یہ معاملہ شہریت دینے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

میانمار میں ساحلی شہر سِٹوے سے چند کلومیٹر دور ایک تنگ، پُرشور کیمپ کے داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس تعینات ہے۔ نا تو کوئی ان کی اجازت کے بغیر یہاں آ سکتا ہے نہ کیمپ چھوڑ سکتا ہے۔

افلاس زدہ ڈر پنگ کیمپ کے قریب سے صرف ایک سڑک گزرتی ہے۔ اس کیمپ میں 958 روہنگیا خاندان رہتے ہیں۔

بے گھر ہونے والے روہنگیاؤں کے کئی اور دیہات قریب ہی واقع ہیں، جہاں آبادی 10,000 سے بھی زیادہ ہے۔ بھوسے کی چھت والی کچی جھونپٹریوں والے ان دیہات کے اردگرد ویرانی ہے۔

جون 2012 میں شروع ہونے والے نسلی تشدد جیسے واقعات روکنے کے لیے ہر طرف پولیس اور ان کی چوکیاں نظر آتی ہیں۔

وائس آف امریکہ کو حکومت کی جانب سے کیمپ جانے کی اجازت دی گئی۔ وہاں رہنے والے روہنگیا دوستانہ، بلا تکلف بات کے لیے تیار تھے۔

چاہے وہ اپنی نسلی شناخت برقرار رکھیں یا اپنے ہی ملک میں تارکین وطن کی حیثیت سے رہیں، ان بے گھر مسلمانوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔

اس ہفتے میانمار نے روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے کا عمل شروع کیا ہے جو کئی سالوں سے شناخت کے بغیر رہ رہے تھے۔

تاہم یہ عمل متنازع ہے اور نسلی فسادات کی گڑھ رخائن ریاست سے دور اس کی نگرانی کی جائے گی۔ ان فسادات نے ہزاروں افراد کو جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اس نسلی تنازع کو دو الفاظ بیان کرتے ہیں: روہنگیا اور بنگالی۔ یہ دو الفاظ میانمار میں شناخت، شہریت اور تعلق کے احساس پر لڑائی کی علامت بن چکے ہیں۔

تین سال قبل اس ماہ محصور مسلمان اقلیت جو خود کو روہنگیا کہتے ہیں اور بدھ اکثریت کے درمیان فسادات شروع ہو گئے تھے۔

کئی ماہ جاری رہنے والے نسلی اور فرقہ وارانہ تشدد میں 200 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوگئے جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے یہاں آ کر سخت کنٹرول نافذ کیا۔

حکام چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کہ ان لوگوں کو شہریت دی جائے یا نہیں، یہاں رہنے والے اپنی شناخت بنگالی ظاہر کریں۔

وزیرِ اعلیٰ مونگ مونگ اون نے کہا کہ روہنگیا لفظ استعمال کرنے کا مطلب نسلی دعویٰ کرنا ہے جس میں علاقہ بھی شامل ہے اور یہ معاملہ شہریت دینے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بالآخر انہیں ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔

’’اگر یہ بنگالی لوگ شہریت کے لیے تصدیق کے عمل میں شریک ہوتے ہیں اور اگر انہیں شہریت مل جائے تو انہیں شہریوں کی حیثیت سے آزادی سے نقل و حرکت کے حقوق خودبخود حاصل ہو جائیں گے۔ مگر کچھ لوگ اس عمل میں شریک ہونے کی شرائط کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ آپ کو شہریت چاہیئے یا اپنی روہنگیا شناخت؟‘‘

میانمار کی رخائن ریاست ملک کی سب سے افلاس زدہ ریاست ہے اور 2012 میں ہونے والے فسادات کے صدمے کا اثر یہاں ابھی تک باقی ہے۔

رخائن کے دارالحکومت سٹوے کے جنوب میں روہنگیا کو بدھ اکثریت سے تحفظ کی ضرورت ہے۔

شمال میں مونگڈا کے قریب بدھوں کو مسلمانوں سے بچانے کے لیے محافظ تعینات کیے گئے ہیں۔ یہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔

ان دو گروہوں کے درمیان گہری بداعتمادی کی فضا پائی جاتی ہے۔

ریاست کے دارالحکومت سٹوے میں آنگ منگلار علاقے کے علاوہ مسلمان بالکل موجود نہیں۔ بدھ پڑوسیوں کی طرف سے تشدد کے خطرے کی وجہ سے لوگ اپنی آبادی میں محصور ہیں۔

سٹوے سے چند کلومیٹر دور تنگ اور غلیظ ڈر پنگ کیمپ میں حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ یہاں لوگوں کے پاس ناکافی خوراک ہے، روزگار نہیں اور مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ جب یہاں رہنے والوں سے پوچھا گیا کہ وہ شہریت حاصل کرنے کے لیے خود کو بنگالی کہنا قبول کریں گے تو ان کا پُرزور جواب ’’نہیں‘‘ تھا۔

شہریت کے لیے تصدیق کا عمل اس ہفتے دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔

اس عمل میں عارضی رہائش کی تصدیق والے ’’سفید کارڈ‘‘ کی جگہ نئے فیروزی کارڈ جاری کیے جائیں گے۔ بنگالی کہلانا قبول کرنے والے روہنگیا افراد کی جانب شہریت کی درخواستوں پر غور کے دوران اس فیروزی کارڈ کو شناخت کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

مگر یہاں رہنے والے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ روہنگیا کا لفظ ہی استعمال کریں گے۔ وہ اپنے آپ کو میانمار کے اس حصے سے تعلق رکھنے والے سمجھتے ہیں، نا کہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آنے والے غیر ملکی۔

بنگالی کہلانے کی اتنی مخالفت کے باوجود میانمار کی حکومت انہیں کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے طرفین کے درمیان تعطل جاری رہنے کا امکان ہے۔

XS
SM
MD
LG