بھارتی مسلح افواج کی آمد کی چھیاسٹھویں سالگرہ کے موقعے پر وادیٴ کشمیر میں احتجاجی ہڑتال کی گئی اور پُرتشدد مظاہروں میں کئی افراد زخمی ہوگئے۔
بھارتی فوج کی سکھ ریجمنٹ کا پہلا قافلہ ہوائی جہازوں کے ذریعے 27 اکتوبر 1947ء کو سری نگر کے ہوائی اڈے پر اُتارا گیا تھا جِس کے ساتھ ہی ریاست جموں و کشمیر کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پہلی جنگ کا باضابطہ آغاز ہوا تھا جو اُس کی تقسیم پر منتج ہوا۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ علاقے میں اُس کی فوجیں ریاست کے مہاراجہ ہریش سنگھ کی طرف سے دستاویز الحاق پر دستخط کیے جانےکے بعد بھیجی گئیں، تاکہ پاکستان سے آئے ہوئے قبائلی حملہ آوروں کو ریاست کی حدود سے باہر دھکیل دیا جائے۔
لیکن پاکستان اور آزادی پسند کشمیری قیادت کا استدلال ہے کہ ایک ہندو مہاراجہ کے لیے مسلم اکثریتی ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں تھا۔ چناچہ، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کی اپیل پر ہر سال بھارتی کشمیر میں اِس دِن کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے، جب کہ پاکستانی کشمیر میں اِس موقعے پر احتجاجی جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
بدھ کو وادیٴ کشمیر کے بیشتر شہروں اور قصبہ جات میں کرفیو نافذ رہا تاکہ علاقے کے میر واعظ عمر فاروق کی اپیل پر سری نگر میں اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین برائے بھارت و پاکستان کے صدر دفاتر کی طرف سے ایک احتجاجی مارچ کو ناکام بنایا جاسکے۔
میر واعظ عمر، سید علی شاہ گیلانی اور محمد یاسین ملک کے علاوہ کئی سرکردہ آزادی پسند لیڈروں کو پہلے ہی اُن کے گھروں میں نظربند کیا گیا تھا۔
بانڈی پور کے قصبے میں مظاہرین نے حفاظتی دستوں پر پتھر پھینکے۔ دس افراد زخمی ہوگئے۔ بعض دوسرے حصوں میں بھی اِس طرح کی جھڑپوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔دِن مجموعی طور پر پُرامن گزرا۔ اُڑی اور چکوٹھی کے راستے تجارت ایک دِن کے لیے معطل رہی۔