خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں اضافے اور امنِ عامہ کی خراب صورتِ حال کے سبب قبائلی علاقوں کے مکینوں نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں شمالی وزیرستان کے قصبے میر علی میں پانچ قبائلیوں کو گھات لگا کر قتل کیا گیا تھا جب کہ بدھ کو پشاور اور نوشہرہ میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے پولیس پر حملے کرکے تین پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا ۔
وزیرستان میں احتجاج، انسدادِ پولیو مہم کے بائیکاٹ کی دھمکی
افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے خلاف اتوار سے احتجاجی دھرنا دیا جا رہا ہے۔ اس دھرنے میں مقامی عمائدین اور شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہے۔
دہشت گردی اور گھات لگا کر قتل کی وارداتوں میں اضافے پر شمالی اور جنوبی وزیرستان کے قبائلی شہریوں نے انسداد پولیو مہم کے بائیکاٹ کی بھی دھمکی دی ہے۔
اس مہم کے بائیکاٹ کی دھمکی ایک ایسے وقت میں دی جا رہی ہے جب رواں برس ملک بھر میں پولیو کے 14 کیسز سامنے آ چکے ہیں جب کہ ان میں سے 13 کیسز کا تعلق شمالی وزیرستان اور ایک کا ضلع لکی مروت سے ہے۔
رواں برس 55 پولیس اہلکار قتل
حکام کا کہنا ہےکہ رواں برس اب تک صوبے کے مختلف علاقوں میں 55 پولیس افسران اور اہلکاروں کو ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں دو انسپکٹر، دو سب انسپکٹر، پانچ اسسٹنٹ سب انسپکٹر، تین ہیڈ کانسٹیبل اور 43 اہلکار قتل ہو چکے ہیں۔
پولیس پر حملے
پولیس کے مطابق پشاور کے قریب واقع نیم قبائلی علاقے درہ آدم خیل سے ملحقہ متنی تھانے کی حدود میں واقع پولیس کی گشتی ٹیم پر بدھ کو نامعلوم افراد نے حملہ کیا۔ فائرنگ سے دو پولیس اہلکار ہلاک جب کہ ایک افسر زخمی ہوا۔
دوسری جانب پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے دفتر کو دستی بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی البتہ بم پھٹ نہ سکا۔بعد ازاں بم ڈسپوزل اسکواڈ نے اس بم کو ناکارہ بنا دیا۔
ضلع نوشہرہ کی فوجی چھاؤنی کی حدود میں نامعلوم افراد نے موٹر سائیکل سوار دو پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی جس سے ایک اہلکار ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا۔
پولیس کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بدھ کو ہونے والے تینوں حملوں میں ملوث ملزمان حملے کرنے کے بعد فرار ہوگئے البتہ ان حملوں کے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔
حملوں کا ذمہ دار کون؟
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں پولیس اور عام شہریوں پر حملوں میں تیزی ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب پاکستانی حکام تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ساتھ مصالحت کے لیے کوشاں ہیں۔
ماضی میں صوبے میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری ٹی ٹی پی سمیت دیگر شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں البتہ حالیہ دنوں صوبے میں ہونے والی پر تشدد کاروائیوں کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان بھی پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث عناصر کی گرفتاری کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت کر چکے ہیں۔
عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ
خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری نے جمعرات کو پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پولیس ایسے حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور پر تشدد کارروائیوں کے خاتمے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے مستعد ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں دو درجن عسکریت پسند مارے گئے ہیں جب کہ لگ بھگ 20 شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔