قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے لگ بھگ دودرجن افراد نے جمعرات کو اسلام آباد میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہر ے کے شرکا کا کہنا تھا کہ اُن کے عزیز و اقارب مبینہ امریکی میزائل حملوں میں مارے گئے ہیں اور اُن افراد کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ تمام لوگ امریکہ کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں شمالی وزیرستان کے رہائشیوں کی طرف سے ڈرون حملوں کے خلاف یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مظاہرہ ہے جو جمعہ کو بھی جاری رہے گا۔
مظاہرے کی قیادت شمالی وزیر ستان کے ایک رہائشی کریم خان وزیرکر رہے تھے جنہوں نے تقریباً دو ہفتے قبل امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ اور مبینہ طور پر پاکستان میں تعینات اس ادارے کے ایک نمائندے کو پچاس کروڑ ڈالر ہرجانے کاقانونی نوٹس بھیجا تھا۔
کریم خان کا موقف ہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں اُن کے حجرے پر مبینہ امریکی ڈرون حملے میں اُن کا بیٹا اور بھائی مارا گیا تھا اور اُن کے بقول مارے جانے دونوں افراد کا تعلق شدت پسندوں سے نہیں تھا۔
اس مظاہر ے میں قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی اور شمالی وزیر ستان سے رکن قومی اسمبلی کامران خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُنھوں نے اس سے قبل بھی پارلیمان میں ڈرون حملوں کے خلاف آواز بلند کی تھی اور آئندہ بھی وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ کامران خان نے حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ڈرون حملوں کو بند کرانے میں کردار ادا کرے۔
اراکین اسمبلی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ملک کے قبائلی علاقے میں تواتر کے ساتھ ہونے والے ڈرون حملوں کورکوانے کے لیے حکومت پاکستان کے راستے نیٹو افواج کی افغانستان جانے والی رسد کو بھی روک دے ، کیوں کہ اُن کا موقف ہے کہ ایسا کرنے سے سرحد پار موجود امریکی افواج پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
کریم خان کے وکیل مرزا شہزاد اکبر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے موکل نے امریکی حکام کو 14 دن کانوٹس بھجوایا تھا کہ اُنھیں ہرجانے کی رقم ادا کی جائے لیکن اُس کا تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور وہ آئندہ ہفتے اسلام آباد کی عدالت میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے حکام کے خلاف باضابطہ مقدمہ دائر کریں گے ۔ جب کہ اُن کا کہنا ہے کہ مزید پندرہ افراد بھی ایسا ہی مقدمہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے میں رواں سال کے دوران بغیر پائلٹ کے مبینہ امریکی جاسو س طیاروں یا ڈرونز سے تواتر کے ساتھ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے گئے ہیں جن میں بیسیوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کر نے کا دعویٰ کیا گیاہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکی حکام ڈرون حملوں کی تردید یا تصدیق نہیں کرتے لیکن پاکستانی حکام ان مبینہ امریکی حملوں کو ملک کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دے کر ان کی مذمت کرتے ہیں ۔ پاکستان نے حالیہ دنوں میں بار بار امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کرے کیوں کہ یہ حملے دہشت گردوں کے خلاف حکومت پاکستان کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔
اعلیٰ امریکی عہدیدار اگرچہ براہ راست ڈرون حملوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن اُن کا ماننا ہے کہ القاعد ہ اور اس کی حامی تنظیموں کاقلع قمع کرنے میں یہ ایک موثر ہتھیار ثابت ہو رہا ہے۔