شمالی وزیرستان کے ایک رہائشی کریم خان وزیرنے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ اور مبینہ طور پر پاکستان میں تعینات اس ادارے کے ایک نمائندے کو پچاس کروڑ ڈالر ہرجانے کاقانونی نوٹس بھیجا ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں اپنے وکیل کے ساتھ پریس کانفرنس میں کریم خان نے بتا یا کہ گذشتہ سال دسمبر میں اُن کے گھر سے ملحقہ حجرے پر مبینہ امریکی ڈرون حملے میں اُن کا بیٹا ، بھائی اور ایک دوسرا شخص مار ا گیا تھا جو اُن کے بقول بے قصور تھے اور اسی بنا پر اُنھوں امریکی حکام سے ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اُن کے وکیل مرزا شہزاد اکبر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر 14 دن میں قانونی نوٹس کا جواب نہیں دیا جاتا تو اسلام آباد کی عدالت میں ان افراد کے خلاف باضابطہ مقدمہ دائر کیا جائے گا۔
رواں سال افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے میں بغیر پائلٹ کے مبینہ امریکی جاسو س طیاروں یا ڈرونز سے تواتر کے ساتھ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے گئے ہیں جن میں درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کر نے کا دعویٰ کیا گیاہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکی حکام ڈورن حملوں کی تردید یا تصدیق نہیں کرتے لیکن پاکستانی حکام ان مبینہ امریکی حملوں کو ملک کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دے کر ان کی مذمت کرتے ہیں ۔ پاکستان نے حالیہ دنوں میں بار بار امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرے ۔
اعلیٰ امریکی عہدیدار اگرچہ براہ راست ڈرون حملوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن اُن کا ماننا ہے کہ القاعد ہ اور اس کی حامی تنظیموں کاقلع قمع کرنے میں یہ ایک موثر ہتھیار ثابت ہو رہا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں کے لیے انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی کاکام مقامی لوگ کررہے ہیں اور اسلام آباد نے خفیہ طور پر اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ تاہم دونوں ملک ایسے کسی خفیہ معاہدے کے وجود کی تردید کرتے ہیں۔
اگرچہ کریم خان کے دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت سے ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر تنقید اور تشویش میں اضافہ ہوگا۔