خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں پولیس نے ایک افغان باشندے کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کرکے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایک روز قبل بونیر کے تجارتی مرکز سواڑی میں مقامی دکان داروں نے شہریوں کے ہمراہ ایک 23 سالہ نوجوان کو مقامی پولیس تھانے میں اہلکاروں کے حوالے کیا تھا۔ اس نوجوان کو تھانے لانے والے افراد کا الزام تھا کہ وہ توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے۔
پولیس نے ملزم کے خلاف رضوان نامی شخص کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے۔ ایف آئی آر کے لیے دی گئی درخواست کے مطابق ملزم نے ایک مقامی تندور پر خدا اور مسلمانوں کے پیغمبر کے لیے توہین آمیز جملوں کا استعمال کیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے اس واقعے کے بارے میں اپنی دکان کے مالک ساجد علی کو آگاہ کیا جنہوں نے مارکیٹ میں موجود دیگر افراد کو بھی یہ واقعہ سنایا۔ اس کے بعد تمام افراد مقامی مذہبی شخصیت قاری ظفر اللہ کے پاس مشورہ کرنے گئے جو سب لوگوں کو لے کر مقدمے کے اندراج کے لیے تھانے آ گئے۔
بونیر کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) عبد الرشید خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پیر کو بونیر کے تجارتی قصبے سواڑی کے لوگ ایک 23 سالہ نوجوان کو پکڑ کر تھانے لائے اور پولیس کے حوالے کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ نوجوان مبینہ طور پر توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے۔
ان کے مطابق پولیس نے رضوان احمد نامی شخص کی مدعیت میں ان کے ساتھ آئے ہوئے مقامی مذہبی شخصیت قاری ظفر اللہ کے موجودگی میں مقدمہ درج کیا۔
ضلعی پولیس افسر عبد الرشید خان نے مزید بتایا کہ ملزم مقامی تندور پر مزدوری کرتا ہے۔
حکام کے مطابق واقعے کی اطلاع پھیلنے کے بعد پیر اور منگل کی درمیانی شب تھانے کے باہر مشتعل مظاہرین جمع ہو گئے جو ملزم کو ہجوم کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ پولیس اسٹیشن کے باہر وہی لوگ جمع ہوئے تھے جو ملزم کو تھانے لائے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
ملزم یا اس کے کسی قریبی رشتے دار نے واقعے پر کسی قسم کا ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ پولیس حکام کے مطابق گرفتار نوجوان افغان پناہ گزین ہے جب کہ جس شخص نے اس پر مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دی ہے وہ اسی بازار میں گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس کی دکان پر کام کرتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں ماضی میں بھی کئی لوگوں پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ جن افراد پر الزام لگایا گیا ان میں سے بعض قتل بھی ہو چکے ہیں۔