بھارت میں متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج گزشتہ 10 دن سے جاری ہے۔ کسانوں نے دارالحکومت نئی دہلی سے متصل ریاستوں ہریانہ اور اتر پردیش (یو پی) کی سرحدوں کو بند کر دیا ہے۔
کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت نے جو تین زرعی قوانین منظور کیے ہیں۔ انہیں واپس لے۔ اناج منڈیوں کو ختم نہ کرے اور حکومت کی جانب سے مقرر کردہ اناج کی کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کو قائم رکھنے کے لیے قانون وضع کیا جائے۔
حکومت اور کسانوں کی 34 تنظیموں کے نمائندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے تین ادوار ناکام ہو چکے ہیں۔ جب کہ ہفتے کو مذاکرات کے چوتھے دور سے متعلق بات چیت ہو رہی ہے۔
حکومت سے بات چیت کے دوران کسان نمائندے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اشیا خور و نوش کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور وہ کھانے پینے کی اشیا خود لے کر پہنچتے ہیں۔
کسانوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو رواں ماہ 7 دسمبر کو معروف شخصیات، دانشوروں، فنکاروں اور کھلاڑیوں کی طرف سے اپنے سرکاری ایوارڈز واپس کر دیے جائیں گے اور 8 دسمبر کو مکمل بھارت بند یعنی ہڑتال کی جائے گی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ کا گھیراؤ ہو گا۔
کسان رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ وہ بھارت بند کے دوران پورے ملک کی چنگیوں پر قبضہ کر لیں گے اور حکومت کو ٹول ٹیکس وصول کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
کسان رہنماؤں نے دھمکی دی ہے کہ مطالبات کی عدم منظوری کی صورت میں وہ دودھ، پھل، سبزی اور دوسری اشیا کا دہلی میں آنا روک دیں گے۔
خیال رہے کہ کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے اس وقت بھی ان اشیا کی دہلی آمد متاثر ہوئی ہے جب کہ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ تینوں زرعی قوانین کسان مخالف اور صنعت کاروں اور کارپوریٹ کمپنیوں کے مفاد میں ہیں۔
کسانوں کا ماننا ہے کہ ان قوانین سے کنٹریکٹ فارمنگ کا دور شروع ہو جائے گا۔ جو کسانوں کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ زرعی شعبے پر کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی اور انہیں اپنی فصلوں کی کم قیمت ملے گی۔
ان کے مطابق چند ایک ریاستوں میں جہاں ایم ایس پی کو ختم کیا گیا ہے۔ وہاں کے کسان بہت پریشان ہیں اور انہیں اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا۔
تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد میں ہیں اور ان کے نفاذ کے بعد کسانوں اور خریداروں کے درمیان موجود ایجنٹوں سے کسانوں کو نجات مل جائے گی۔ کسان اپنی من پسند قیمت میں اپنی فصلیں فروخت کر سکیں گے۔
حکومت کسانوں سے یہ تحریری وعدہ کرنے کے لیے تیار ہے کہ ایم ایس پی کو ختم نہیں کیا جائے گا۔ لیکن کسان قوانین کو منسوخ کرنے کے علاوہ کسی اور فارمولے پر تیار نظر نہیں آتے۔
حکومت نے رواں سال ستمبر میں اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود ان قوانین کو منظور کیا تھا۔
اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ حکومت انہیں پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کرے۔ لیکن حکومت نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔
دہلی اور ہریانہ کی سرحد سنگھو کے مقام پر میلوں تک کسانوں کے ٹریکٹر کھڑے ہیں۔ انہوں نے سڑکوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
اسی طرح دہلی اور اتر پردیش کی سرحد غازی آباد میں بھی میلوں تک کسان دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
دہلی میں داخل ہونے والے تمام پانچوں راستے کسانوں کے قبضے میں ہیں جس کی وجہ سے دہلی اور مضافات میں نقل و حمل اور ٹریفک کی روانی میں زبردست رکاوٹ آ رہی ہے اور دہلی پولیس روزانہ ٹریفک ایڈوائزری جاری کرتی ہے۔
بھارت کی جنوبی ریاستوں کیرالہ، کرناٹک اور شمال مشرقی ریاست آسام کے کسان بھی بینروں کے ساتھ دہلی کی جانب کوچ کر رہے ہیں۔
مغربی اتر پردیش کے وہ کسان بھی جو گنا اگاتے ہیں اور جو ان قوانین سے زیادہ متاثر نہیں ہیں، احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔ ہزاروں کسان صبح کے وقت گھروں سے نکلتے ہیں اور پورا دن احتجاج پر بیٹھ کر شام کے وقت گھر چلے جاتے ہیں۔
متعدد سیاسی و سماجی تنظیموں نے بھی اس احتجاج کی حمایت کی ہے۔ ان کے نمائندے بھی دھرنے کے مقام پر پہنچ کر ان میں شامل ہو رہے ہیں۔
ادھر پنجاب اور ہریانہ سے ہندؤں اور مسلمانوں کی تقریباً تین درجن برادریاں اس احتجاج میں شامل ہیں۔ ان میں خواتین بھی حصہ لے رہی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مرد کسان دھرنے پر ہیں اور خواتین کسان کھیتوں میں جا کر کام کر رہی ہیں۔
شاہین باغ کی دادی کی دھرنے میں شرکت
بعض میڈیا رپورٹس میں کسانوں کے دھرنے کو بھی ‘شاہین باغ’ دھرنا کہا جا رہا ہے۔
شاہین باغ کے دھرنے کی قیادت کرنے والی 82 سالہ بلقیس بانو نے بھی، جو ‘شاہین باغ کی دادی’ کے نام سے شہرت رکھتی ہیں، سنگھو بارڈر پہنچ کر کسانوں کے دھرنے کی حمایت کی ہے۔
پولیس نے بلقیس بانو کو وہاں ٹھیرنے نہیں دیا اور شاہین باغ کے قریب سریتا وہار تھانے لے جا کر چھوڑ دیا۔
اسی درمیان بالی ووڈ اداکارہ کنگنا راناوٹ کسانوں کے دھرنے میں شامل ایک بڑی 72 سالہ خاتون مہندر کور کو ایک ٹوئٹ میں شاہین باغ کی دادی بتا کر پھنس گئی ہیں۔
انہوں نے ٹوئٹ کر کے کہا کہ شاہین باغ کی دادی بھی 100 روپے دہاڑی پر کسانوں کی حمایت کرنے پہنچ گئی ہیں۔
تاہم بعد ازاں انہوں نے مذکورہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دی تھی۔ لیکن مہندر کور نے ان کو قانونی نوٹس بھیج کر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی سے متصل ہریانہ اور اتر پردیش کی سرحد پر جہاں کسان دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ جگہ جگہ لنگر لگے ہوئے ہیں اور کسانوں کے لیے وہاں 24 گھنٹے کھانا بنتا رہتا ہے۔
کسان جگہ جگہ چارپائیوں، کرسیوں اور دریوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔
پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے کسانوں کے ‘شوقِ حقہ نوشی’ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ سیکڑوں ٹریکٹروں کو رہائشی کمروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے. جہاں کھانے پینے اور رہنے سونے کے بھی انتظامات ہیں۔
جگہ جگہ میڈیکل کیمپ لگے ہوئے ہیں جہاں بیماروں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ موبائل میڈیکل ٹیمیں بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
خیال رہے کہ پورے ملک میں 7000 اناج منڈیاں ہیں جہاں کسان اپنا اناج لے جا کر حکومت کی مقرر کردہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
یہ منڈیاں کسانوں، زمین مالکوں اور کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ جو کہ متنازع قوانین سے ختم ہو جائیں گی۔
کینیڈین وزیرِ اعظم کی کسانوں کی حمایت
دوسری طرف کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے کسانوں کے احتجاج کی حمایت کرنے پر بھارت اور کینیڈا کے باہمی رشتوں پر اثر پڑتا نظر آرہا ہے۔
جسٹن ٹروڈو نے 30 نومبر کو سکھ مت کے بانی گرو نانک کے 551 ویں یوم پیدائش پر ایک ورچوئل میٹنگ میں سکھوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کینیڈا پُر امن احتجاج کے حق کا حامی ہے۔ وہ اس حق کی ہمیشہ حمایت کرے گا۔
ان کے اس بیان پر بھارت نے سخت اعتراض کیا اور 4 دسمبر کو کینیڈا کے ہائی کمشنر کو وزراتِ خارجہ میں طلب کر کے ناراضگی ظاہر کی گئی۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم اور وہاں کے بعض ارکین پارلیمنٹ کے بیانات کو بھارت کے اندرونی امور میں مداخلت اور نا قابلِ قبول قرار دیا گیا ہے۔
وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کینیڈا کے مذکورہ بیانات نا واقفیت پر مبنی اور غیر ضروری ہیں۔ اگر ایسے بیانات کا سلسلہ جاری رہا تو دونوں ملکوں کے تعلقات پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکمتِ علمی تیار کرنے کی غرض سے سات دسمبر کو کینیڈا کی قیادت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں بطور احتجاج شرکت نہیں کریں گے۔
بھارتی نشریاتی ادارے ‘انڈیا ٹوڈے’ نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت نے اپنے اس مؤقف سے کینیڈا کو آگاہ کر دیا ہے۔
لیکن بھارت کی وزارتِ خارجہ کے اس سخت مؤقف کے باوجود جمعے کو جسٹن ٹروڈو نے ایک بار پھر اپنے بیان کا اعادہ کیا اور کہا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی پُر امن احتجاج ہو۔ کینیڈا اس کی حمایت کرتا ہے۔
مبصرین کے مطابق کسان، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامی رہے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد نے گزشتہ دو پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی حمایت کی تھی۔ لیکن اب جب کہ وہ متنازع قوانین کے خلاف سڑکوں پر آئے ہیں تو بی جے پی کے بعض رہنماؤں کی جانب سے انہیں ‘کانگریسی’ کہا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس احتجاج کو خالصتاً کمانڈو فورس کی حمایت حاصل ہے۔
ان بیانات پر کسان رہنماؤں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے مذاکرات میں شامل وزیرِ زراعت نریندر سنگھ تومر، وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیر تجارت پیوش گوئیل اور وزیرِ داخلہ امت شاہ نے حکومت اور کسانوں کے نمائندوں کی ایک کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی۔ جسے کسانوں نے مسترد کر دیا۔
بعض مبصرین کے مطابق حکومت یہ دکھانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اسے اس احتجاج سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ لیکن وہ اندر ہی اندر خوف زدہ بھی ہے۔ اسی لیے وہ درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن کسان درمیانی راستے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ متنازع قوانین کی واپسی تک اپنا احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ وزرا وزیرِ اعظم سے مسلسل رابطے میں ہیں اور وہ ان کو صورتِ حال سے واقف کرتے رہے ہیں۔