رسائی کے لنکس

پاکستانی سیاست کا مرکزنئے صوبوں کا قیام، نئی بحث جاری


پاکستانی سیاست کا مرکزنئے صوبوں کا قیام، نئی بحث جاری
پاکستانی سیاست کا مرکزنئے صوبوں کا قیام، نئی بحث جاری

پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے آئندہ انتخابات کی تیاریاں تقریباً تقریباً شروع کر دی ہیں اور سیاست کا مرکز نئے صوبوں کے قیام سے متعلق بحث بن چکی ہے ۔ ماہرین اگر چہ اس وقت ملک میں نئے صوبوں کے قیام کی تشکیل انتہائی ناگزیر قرار دے رہے ہیں تاہم انکے مطابق سیاسی جماعتیں اس عمل کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی تمام توجہ مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کے لئے سرائیکی صوبے پر مرکوز ہے تو مسلم لیگ ن عدلیہ کے فیصلوں میں حکومتی تاخیر اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے تاثر کا بھر پور فائدہ اٹھاکر جلد از جلد نئے انتخابات کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔

گوکہ اس وقت ملک میں سرائیکی، ہزارہ اور بہاولپور کو صوبہ بنائے جانے کے لئے منظم طریقے سے تحاریک چلائی جا رہی ہیں مگر حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کی دلچسپی سب سے زیادہ سرائیکی صوبہ بنانے میں ہے اور اس کی حمایت میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے علاوہ دیگر قیادت کے بیانات معمول بن چکے ہیں ۔ اس سے یہ تاثر واضح ہوتاہے کہ پیپلزپارٹی کسی بھی صورت نئے صوبے کی تشکیل کے لئے تیار ہے۔

بظاہر حکمراں جماعت کی قیادت کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی رواں ماہ میں سرائیکی صوبے کے حوالے سے اعلان کر دے گی تاہم ماہرین کے مطابق پنجاب میں صوبے کے قیام کے لئے اسے قومی اسمبلی و سینیٹ میں دو تہائی اور پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنا ہو گی ۔ حکومت کو اس کے لئے پہلے مرحلے میں پنجاب اسمبلی سے صوبے کی قرارداد منظور کرانی ہو گی جس میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بہتر انتظامیہ اور عوامی مسائل کے حل کیلئے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ نئے صوبے بنائے جائیں تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نئے صوبے کے قیام سے متعلق عام سوچ یہی ہے کہ اس عمل سے ملک کمزور ہوگا اور جب بھی ملک کے کسی علاقے سے ایسا مطالبہ کیا جاتا ہے تو بہت سے لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں ۔ اگر پنجاب میں نئے صوبوں کی بات کی جائے تو مسلم لیگ ن کو برا لگتا ہے ، ہزارہ کو صوبہ بنانے کی بات ہوتی ہے تو اے این پی اور دیگر جماعتیں اسے ملک کے خلاف سازش قرار دیتی ہیں اور اگر کراچی کی بات کی جائے تو پیپلزپارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سخت بیانات آنے لگتے ہیں۔

حالانکہ نئے صوبوں کے حامی مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت میں قیام کے وقت تیرہ صوبے تھے اور سات یونٹ (آزاد) کو ملا لیا جائے تو 35 صوبے بنتے ہیں ،افغانستان کی صرف ساڑھے تین کروڑ آباد ی کے لئے 34 صوبے ہیں ، ایران میں ساڑھے چھ کروڑ کی آبادی کے لئے 34 صوبے ہیں ، امریکا دنیا کا سب سے مضبوط ترین ملک ہے جس کی آبادی 35کروڑ سے زیادہ ہے اور اس کی 50 ریاستیں ہیں ، سوئٹرز لینڈ کی صرف 65 لاکھ کی آبادی کے لئے 26 صوبے ہیں ، توپھر پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی کے لئے صرف چار صوبے کیوں؟

دوسری جانب مبصرین کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی خواہش ہے کہ جلد از جلد ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد کرایا جائے کیونکہ آئندہ سال مارچ میں سینیٹ کے انتخابات متوقع ہیں اور موجودہ حکومت اگر قائم رہی تو پیپلزپارٹی کو سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل ہو جائے گی ۔اس کے لئے مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی تشکیل کی ناکام کوشش کے بعد اب اس کی پوری توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر حکومتی تاخیر اور ملک میں بدعنوانی کے تاثر کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی رخصتی کی کسی نئی صورت پر ہے تاہم موجودہ صورتحال میں ن لیگ کی قیادت صرف گو زرداری گو کے نعرے لگوانے کے علاوہ کچھ اور کرنے کے قابل نظر نہیں آتی۔

XS
SM
MD
LG