پاکستان کے 2024 کے عام انتخابات میں ماضی قریب کے برعکس روایتی طور پر مقبول الیکٹیبلز کے بجائے اس بار خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی اکثریت کو کامیابی ملی ہے ۔ ان امیدواروں میں اکثریت تو سابقہ ممبران پارلیمان کی ہے مگر ان میں بہت سے بالکل نئے چہرے بھی ہیں۔
خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کے 44 میں سے اب تک 33 نشستوں جب کہ صوبائی اسمبلی کی 113 نشستوں میں سے 64 کے غیر سرکاری نتائج سامنے آچکے ہیں۔
ان غیر سرکاری نتائج کے مطابق خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی 33 میں سے تیس نشستوں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 64 نشستوں کے نتائج کے مطابق 56 نشستوں پر پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں میں قومی اسمبلی کے نشستوں پر کامیاب ہونے والوں میں پارٹی کے نامزد چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان، پارٹی کے صوبائی چیئرمین علی امین گنڈہ پور، صوبائی سیکرٹری جنرل علی اصغر خان، قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر سابق صوبائی وزراء، شہرام خان اور ڈاکٹر امجد علی اور خواتین کے نشست پر سابق ممبر قومی اسمبلی شاندانہ گلزار سر فہرست ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے نشستوں پر پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں میں سابق صوبائی وزیر کامران بنگش اور سابق سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی بہت بڑی تعداد میں کامیابی سے جہاں ایک طرف خیبرپختونخوا میں اس جماعت کی مقبولیت کی توثیق ہوئی ہے تو دوسری طرف ملکی سیاسی صورتِ حال پر اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
پشاور کے ایک مقامی اخبار سے منسلک سینئر صحافی اور پارلیمانی رپورٹنگ کے ماہر شاھد حمید نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والوں کے سامنے کئی راستے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چند روز قبل چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ یہ لوگ اپنا وزیر اعظم بھی لا سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے حلف اٹھانے کے بعد تین دنوں میں کسی بھی پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں۔
تاہم ان کے بقول اس کے علاوہ ان کے پاس پاکستان تحریکِ انصاف کو انٹراپارٹی الیکشن کروا کر اسے بھی پارلیمنٹ پہنچانے کا بھی ایک موقع ہے۔
مقامی اخبار کے ایڈیٹر عرفان خان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت نہیں پے اس لیے آزاد حیثیت میں یہ لوگ ایک گروپ کی شکل مین خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی سے ایک سیاسی بحران کا جنم فطری امر ہے۔
ان کے بقول اگر ان حمایت یافتہ امیدواروں کی تعداد 73 یا اس سے زیادہ ہو جائے تو آزاد حیثیت میں یہ لوگ تو اپنا وزیر اعلی منتخب کرسکتے ہیں۔
دیگر جماعتوں کے لیے نتائج
ماضی قریب میں ہونے والے عام انتخابات کے برعکس اس بار پاکستان پیپلزپارٹی نے ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور پشاور سے بھی صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر لی ہے۔
اب تک غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کرلی ہے جب کہ تین پر پارٹی کے نامزد امیدواروں کو واضح سبقت حاصل ہے۔
قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو انتخابات میں غیر معمولی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خیبر پختونخوا سے اے این پی نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی صرف ایک ایک نشست حاصل ہوئی ہے۔
انتخابات میں خیبر پختونخوا سے کئی مورثی سیاست دانوں کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سرِفہرست ہیں۔
مولانا فضل الرحمان، ان کے دو بیٹے اور ایک بھتیجے سمیت ان کے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سمیت تین مختلف اضلاع سے قومی اسمبلی کے چار اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ناکامی سے دو چار ہوئے۔
غیر سرکاری نتائج کے مطابق مولانا فضل الرحمن کو بلوچستان کے ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے نشست پر سبقت حاصل ہے۔
سابق وفاقی وزیرِ دفاع اور سابق وزیرِ اعلی پرویز خٹک، ان کے دو بیٹوں اور ایک بھتیجے کو آبائی ضلع نوشہرہ سمیت قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر شکست ہوئی ہے۔
سابق وفاقی وزیر اور سابق وزیرِ اعلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور اپنے بیٹے سکندر حیات شیرپاؤ سمیت آبائی ضلع چارسدہ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک نشست پر انتخابات ہارنے والوں میں شامل ہیں۔
چارسدہ میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اپنے دیرینہ سیاسی حریف خاندان سے تعلق رکھنے والے ایمل ولی خان کے ساتھ قومی اسمبلی کے دونوں نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ بھی کی تھی۔ اس ایڈجسٹمنٹ کے باوجود آفتاب احمد خان اور ایمل ولی خان پی ٹی آئی کے مقابلے میں نشست نہیں جیت سکے۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت کے بااثر اور سیاسی و سماجی طور پر مقبول سیف اللہ خاندان کے انور سیف اللہ خان کو ٹانک کے قومی اسمبلی کے نشست پر شکست ہوئی ہے۔ جب کہ بھائی سلیم سیف اللہ خان اور پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار شیر افضل مروت کے درمیان ووٹوں کی گنتی تاحال جاری ہے۔
قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک بزرگ رہنما حاجی غلام احمد بلور اور ثمر ہارون بلور بھی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔
فورم