دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قومی لائحہ عمل پر مشاوت کے لئے حکومت نے پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ قومی سطح کے اس اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کی اب تک کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔
یہ اجلاس ایسے وقت پر طلب کیا گیا ہے جب فوجی عدالتوں کی مدت رواں ماہ ختم ہونے جارہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے واقعے کے بعد 20 نکاتی قومی ایکشن پلان مرتب کیا تھا۔
ایکشن پلان کا جائزہ لینے کے لئے پارلیمانی سربراہوں کی مشاورتی کانفرنس 28 مارچ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد کی جارہی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان پر پارلیمانی قیادت کے ساتھ حکومت کی یہ مشاورت ایسے وقت میں ہورہی ہے جب پلوامہ واقعے کے بعد عالمی برادری پاکستان سے کالعدم جماعتوں اور دہشت گردی کے حوالے سے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے سے متعلق ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہے۔
وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی کے لئے پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں سے ہونے والے مشاورتی اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے گا اور انہیں اعتماد میں لیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرت ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ایکشن پلان گذشتہ دور حکومت میں تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے ترتیب دیا تاہم اس پر روح کے مطابق عمل نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی اداروں نے اپنا کام کافی حد تک مکمل کیا ہے لیکن سیاسی اور حکومتی سطح پر سستی رہی جسے موجودہ حکومت دور کرنا چاہتی ہے۔
وزیر خارجہ اور حکومتی جماعت تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی سربراہان کے نام نیشنل ایکشن پلان پر مشاورت کے لئے خطوط لکھے ہیں۔
اپنے خط میں شاہ محمود نے لکھا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان قومی اتفاق رائے کا مظہر ہے جس میں کسی دوسرے ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دینے کے عوامی وعدہ کی پاسداری بھی شامل ہے۔