خیبرپختونخوا کے وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ تین صوبائی وزرا کی برخواستگی کا فیصلہ ڈسپلن قائم کرنے کے لیے لیا گیا ہے۔ گروپنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے۔ وزیراعظم نے صاف پیغام دیا ہے کہ کوئی بھی شخص پارٹی سے بڑا نہیں ہے اور یہ کہ نظم و ضبط پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
’’ پارٹی کے اندر انتشار گروپنگ ان چیزوں سے باقی لوگوں کی کارکردگی متاثر ہونے لگی تھی۔ یہ جو فیصلہ لیا گیا ہے بہت سوچ سمجھ کر لیا گیا ہے، بڑی کوشش اور محنت کے بعد، جب ساری چیزوں کی تصدیق ہو گئی کہ یہ لوگ اپنی اس کوشش سے باز نہیں آتے تو پھر یہ فیصلہ لیا گیا‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ آیا وزارتوں سے برطرف کیے جانے والوں کا نقطہ نظر بھی لیا گیا یا ان کے خلاف یک طرفہ موقف پر کارروائی کر دی گئی؟ شوکت یوسفزئی نے کہا کہ معاملات پرانے چلے آ رہے تھے، سو ان کا نقظہ نظر بھی معلوم تھا۔
’’ یہ فیصلہ کوئی ایک رات میں نہیں کیا گیا ، یہ سال بھر کی کہانی ہے۔ ایک سال میں کئی مرتبہ سمجھایا گیا۔ میرے خیال میں جب وزیراعظم نے فیصلہ لیا تو وہ سمجھ چکے تھے کہ اس کے بغیر معاملات درست نہیں ہوں گے‘‘
محمد عاطف خیبرپختونخوا میں سینئر وزیر تھے۔ ان کے پاس کھیل، ثقافت، سیاحت اور آثارقدیمہ کے قلم دان تھے۔ جب کہ شہرام ترکئی وزیرصحت اور شکیل احمد خان وزیر برائے محصولات تھے۔ تینوں وزرا پر الزام تھا کہ وہ وزیراعلی محمود خان کے خلاف گروپنگ کر رہے ہیں اور کابینہ میں کیے گئے فیصلوں کو بھی قبول نہیں کرتے۔
وزیراعظم عمران خان سے ایک روز قبل وزیراعلی محمود خان نے پارٹی کے سینئر رکن، سابق وزیراعلی اور موجودہ وزیردفاع پرویز خٹک کے ہمراہ ملاقات کی۔ بتایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اندرونی اختلافات سے آگاہ کیا گیا۔
محمد عاطف اور شہرام ترکئی کو وزیراعظم عمران خان کے بہت قریب خیال کیا جاتا تھا اور عمران خان ماضی میں دونوں راہنماوں کی کارکردگی کو کھلے بندوں سراہتے رہے ہیں۔ شوکت یوسفزئی کہتے ہیں کہ شخصیات کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔
’’ پارٹیوں کے اندر ڈسپلن، نظم و ضبط زیادہ اہم ہوتا ہے، شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں‘‘۔
تاہم شوکت یوسفزئی نے کہا کہ برطرف کیے گئے وزرا اب بھی تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ ان کو پارٹی کے اندر دھڑے بندی کے الزام پر اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔ ان کا جواب ہی ان کے مستقبل کا تعین کرے گا۔‘‘
محمد عاطف اور شہرام ترکئی سے ان کا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن کسی بھی رہنما نے اپنا ٹیلی فون اٹینڈ نہیں کیا۔ میڈیا میں ان کے حوالے سے چلنے والے بیان کے مطابق محمد عاطف نے کہا ہے کہ مجھے حیرت ہے کہ وزیراعظم نے ہمارا موقف سنے بغیر فیصلہ کر لیا۔
اس اقدام سے خیبرپختونخوا میں سیاسی اور انتظامی اعتبار سے کیا فرق پڑے گا؟ اس پر ردعمل دیتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سابق سینیٹر زاہد خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت سے بہتری کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
’’ ان وزرا کو کیوں نکالا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ کہہ رہے تھے کہ خیبرپختونخوا میں کرپشن ہو رہی ہے۔ مطلب بڑے پروجیکٹ نہیں سو بڑی کرپشن نہیں ہو گی لیکن پوسٹنگ ٹرانسفرز میں کرپشن ہو رہی ہے۔ ویسے تو یہ لوگ خود بھی کرپٹ تھے‘‘۔
زاہد خان نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کی منتخب حکومت نہیں بلکہ ان کے الفاظ میں ’’ سیلیکٹد‘‘ حکومت ہے۔ اس سے کسی بھی سیاسی یا انتظامی بہتری کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ نکالے گئے وزراء کو صفائی کا موقع تک نہیں دیا گیا۔
کیا تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے، اس بارے میں رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو اطمینان ہے کہ پارٹی کی صوبے میں دو تہائی کی اکثریت ہے اور خطرہ نہیں ہے۔ لیکن پارٹی کو خطرہ اپنی جماعت سے ضرور ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ گروپ بندی صرف خیبرپختونخوا میں نہیں ہو رہی، پنجاب اور وفاق میں بھی اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما زاہد خان کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اگر عوام کے ووٹ سے آتی تو اس کو عوام سے خطرہ بھی ہوتا۔ ان کے بقول
’’ شہری تو اس حکومت کی وجہ سے بہت تکلیف میں ہیں۔ غربت ہے، مہنگائی ہے۔ کبھی آٹا غائب تو کبھی ٹماٹر۔ لیکن ہو گا کچھ نہیں، جب تک اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے ساتھ ہے، اس کی حکومت رہے گی۔‘‘