خیبر پختونخوا کے سترہ اضلاع میں 19 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کے بعد اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے مبینہ طور پر اندرونی اختلافات میں شدت دیکھنے میں آ رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات میں پیدا ہونے والے مبینہ اختلافات اور پسند و نا پسند کی بنیاد پر ٹکٹوں کی تقسیم پر بحث مباحثہ ابھی جاری تھا کہ پارٹی کے بعض رہنماؤں کی جانب سے حکومتی کارکردگی پر شکوے شکایات نے پارٹی میں اختلافات کے بیانیے کو مزید ہوا دی ہے۔
گزشتہ ہفتے وزیرِ دفاع پرویز خٹک کی جانب سے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے دوران خیبر پختونخوا کے عوام کو گیس کی عدم فراہمی کی شکایات کے بعد اب رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے بھی اسی قسم کی شکایات کی ہیں۔
گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نور عالم خان نے شکایات و الزامات کے انبار لگائے جس پر پارٹی قیادت ناراض ہو گئی اور انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس بھیج دیا۔
پارٹی کی مرکزی قیادت نے نور عالم خان کی قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی رکنیت بھی ختم کر دی۔ ان کی جگہ اب سوات سے رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر حیدر علی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا رکن بنا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیف وہیب عامر ڈوگر نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو ایک خط بھی لکھا ہے۔
تحریک انصاف کی صوبائی قیادت نے نور عالم خان کو بھیجے گئے شو کاز نوٹس میں کہا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ان کے شائع شدہ بیانات پارٹی پالیسی کے منافی ہیں۔
پارٹی نے 24 جنوری تک نور عالم کو نوٹس کا جواب دینے کا حکم دیا ہے۔
نور عالم کی تقریر میں کیا تھا؟
نور عالم خان نے قومی اسمبلی میں بحث کے دوران پہلے اپنی ہی حکومت اور پارٹی رہنماؤں بالخصوص وزرا کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ گو کہ انہوں نے اپنی تقریر میں وزیرِ اعظم عمران خان سمیت کسی بھی وزیر کا نام نہیں لیا مگر انہوں نے الزام لگایا کہ پشاور کو نظر انداز کر کے صوبے کے بجٹ کا زیادہ حصہ میانوالی، نوشہرہ، سوات اور صوابی پر لگایا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ میانوالی سے وزیرِ اعظم عمران خان منتخب ہوئے تھے جب کہ نوشہرہ پرویز خٹک کا حلقہ ہے۔ اسی طرح ضلع سوات وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا حلقہ اور صوابی اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا آبائی حلقہ ہے۔
نور عالم خان نے اپنی تقریر کے دوران پشاور میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خصوصی طور پر ذکر کیا تھا۔
اسی طرح کے شکوے کا اظہار منی بجٹ کے موقع پر تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے بھی کیا تھا۔
نور عالم خان کا ردِ عمل
نور عالم خان اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے شو کاز نوٹس پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں۔ لیکن وائس آف امریکہ نے ان کا مؤقف جاننے کے لیے کئی بار رابطے کیے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بدھ کو ایک ٹوئٹ میں نور عالم نے کہا کہ گزشتہ تین برسوں سے وہ تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں میں اور پارلیمنٹ کے اندر مسائل اجاگر کر رہے ہیں ۔
یاد رہے کہ نور عالم نے 2018 کے انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس سے قبل وہ 2008 کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور اسی برس رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ لیکن 2013 کے انتخابات میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ہی ٹکٹ سے الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں نے اب تک نور عالم خان کے الزامات پر کسی قسم کے ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا مگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور ان کی کابینہ میں شامل وزرا وقتاً فوقتاً پارٹی میں اختلافات اور گروپ بندی کی اطلاعات کو مسترد کرتے چلے آ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے عہدیداروں نے کسی بھی قسم کے اختلافات یا ارکان اسمبلی کی جانب سے حکومتی پالیسیوں پر عدم اعتماد کی تردید کی ہے۔