پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے کہا ہے کہ تحریک کے ایک سرگرم کارکن عارف وزیر کے قتل کا معاملہ وہ آئندہ ہفتے ہونے والے اسمبلی کے اجلاس میں اٹھائیں گے۔
تحریک کا مطالبہ ہے کہ اس قتل کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چونکہ تحریک کی جانب سے ان پالیسیوں کو چیلنج کیا جاتا ہے جنہیں وہ غلط سمجھتی ہے۔ اس لئے، بقول ان کے، اسے ''ہدف بنایا جاتا ہے''۔
انہوں کہا کہ سرکاری سطح پر اس سلسلے میں خاموشی رہی اور اس کی مذمت تک نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد نا معلوم ٹوئٹر اکاؤنٹس سے مختلف نوعیت کے ٹوئٹر پیغامات جاری کئے گئے اور ''جب تک معاملے کی آزادانہ تحقیقات نہیں ہوں گی حقائق سامنے نہیں آسکیں گے''۔
جنوبی وزیرستان کے مرکزی انتظامی قصبے وانا سے تعلق رکھنے والے پی ٹی ایم کے رہنما عارف وزیر کے قتل کے خلاف صوبے میں مظاہرے بھی ہوئے جن میں حکومت کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ مظاہرے بیشتر پرامن رہے، البتہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی پاداش میں پی ٹی ایم کے کچھ کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔
محسن داوڑ نے کہا کہ ''یہ قتل سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے''۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ ''طالبان کو ختم کیا جائے۔ لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے''۔ انہوں نے کہا کہ ماہ رمضان ختم ہونے کے بعد تحریک اپنا کوئی لائحہ عمل طے کرے گی۔
اس بارے میں کے پی کے حکومت کا رد عمل جاننے کے لئے متعدد کوششیں کی گئیں اور صوبائی حکومت کے ترجمان، خیبر پختونخواہ حکومت کے وزیر اعلی کے مشیر برائے اطلاعات اجمل وزیر سے رابطے کی کوشش کی گئی۔ لیکن، چھہ گھنٹے کی مسلسل کوشش کے باوجود نہ انہوں نے ٹیلیفون اٹھایا۔ نہ ٹیلیفون کال کا جواب دیا نہ ٹیکسٹ میسیج کا کوئی جواب دیا۔ اور جب ان کے پرائیویٹ سیکٹری سے رابطہ ہوا تو ان کا جواب بھی یہ تھا کہ ان کا بھی رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
کے پی کے حکومت کے دوسرے عہدیداروں سے بھی رابطے کئے گئے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ حکومتی موقف کے بارے میں کچھ بتانے کے مجاز صرف حکومت کے ترجمان ہی ہیں۔
واضح رہے کہ ماضی میں اس حوالے سے حکومت کا موقف یہ ہی رہا ہے کہ حکومت سیاسی اختلاف رائے کی حامی ہے۔ لیکن، سب کچھ قانونی حدود کے اندر رہ کر ہونا چاہئے۔