رسائی کے لنکس

پارلیمانی کمیٹی سے ملاقات کی دعوت نہیں ملی: پی ٹی ایم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے ایک مرکزی رہنما نے کہا ہے انہیں ابھی تک حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ ملاقات کی دعوت نہیں ملی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر اجمل وزیر اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکانِ ہارلیمان نے رواں ہفتے ایک پریس کانفرنس میں پختون تحفظ تحریک کے رہنماؤں سے 26 مارچ کو پشاور میں مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔

لیکن پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ انہیں اب تک 26 مارچ کو طے شدہ مذاکرات کی دعوت نہیں ملی۔

علی وزیر کا کہنا تھا کہ ایسی مذاکراتی کمیٹیاں ماضی میں بھی بنتی رہی ہیں لیکن ان کے بقول جب تک ان کمیٹیوں کو اختیارات نہیں دیے جائیں گے، معاملہ آگے نہیں بڑھے گا۔

کمیٹی میں شامل باجوڑ سے حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے رکن قومی اسمبلی گل ظفر خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کے دونوں ارکانِ اسمبلی حکومت کے اتحادی ہیں اور ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں گل ظفر خان نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میں گورنر اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی شامل ہوں گے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت العلماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے ارکانِ پارلیمان بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔

وی او اے سے گفتگو میں علی وزیر نے کہا کہ پختون تحفظ تحریک ہر وقت مذاکرات کے لیے تیار ہے کیوں کہ ان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے ہی تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ مقتدرقوتوں کے سامنے بعض لوگ بلند و بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔

لیکن گل ظفر خان نے کہا کہ کمیٹی پوری طرح بااختیار ہے اور مذاکرات کے دوران پی ٹی ایم کے مطالبات سامنے آئیں گے تو ہی مسائل کا حل اور مطالبات پورے کرنا ممکن ہوسکے گا۔

پی ٹی ایم کا پس منظر اورمطالبات

پشتوں تحفظ تحریک کی بنیاد گومل یونیورسٹی کے طلبا نے 2014ء میں رکھی اور ابتداً تحریک کا مطالبہ تھا کہ وزیر ستان سے بارودی سرنگیں ختم کی جائیں۔

تحریک نے 2018ء کے اوائل میں اس وقت زور پکڑا تھا جب کراچی میں ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں پختون نوجوان نقیب اللہ محسود کو قتل کر دیا گیا تھا۔

واقعے کے خلاف پختون تحفظ تحریک نے اسلام آباد میں کئی روز تک دھرنا دیا تھا اور حکومت کے سامنے نئے مطالبات رکھے تھے جن میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری، پشتونوں کی مبینہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کی روک تھام اور لاپتا افراد کی بازیابی شامل تھی۔

اپنے ان مطالبات کے باعث پی ٹی ایم پشتون نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہوئی تھی۔ منظور پشتین اس تحریک کے چیئرمین ہیں۔

ماضی میں مذاکرات کی کوششیں

حکومت نے پی ٹی ایم کے ساتھ ماضی میں بھی مذاکرات کی متعدد کوششیں کی ہیں جن میں ارکانِ پارلیمان اور سابق صوبائی حکومت کو بھی شریک کیا گیا تھا۔ لیکن یہ مذاکرات کی تمام کوششیں ناکام ہوتی رہی ہیں۔

حکومت نے سب سے پہلے سابق رکن قومی اسمبلی حاجی شاہ جی گل کے سربراہی میں ایک قبائلی جرگے کے ذریعے پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔

سابق صوبائی وزیر اور موجودہ گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان سمیت پاکستان تحریکِ انصاف کے کئی رہنماؤں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا گیا تھا لیکن یہ مذاکرات ناکام رہے تھے۔

حال ہی میں حکومت نے قبائلی رہنماؤں کے ذریعے پی ٹی ایم کے رہنماؤں سے مذاکرات شروع کرنے کی ایک اور کوشش کی تھی جو بے نتیجہ رہی تھی۔

پی ٹی ایم کا مؤقف رہا ہے کہ، بقول اُن کے، ان کے آئینی اور قانونی مطالبات پورے کرنے کے لیے انہیں اب تک حکومت کی جانب سے کسی قسم کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی جب کہ پہلے مذاکرات میں جن امور پر اتفاق ہوا تھا ان پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

پی ٹی ایم پر الزامات

قانون نافذ کرنے والے ادارے پختون تحفظ تحریک کے رہنماؤں پر ملک دشمنی اور غیر ملکی قوتوں کے ساتھ رابطوں کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

لیکن پی ٹی ایم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی ملک دشمن قوت یا غیر ملکی اداروں کے آلۂ کار نہیں بلکہ آئین اور قانون کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے پختونوں کے لیے وہ حقوق اور مراعات مانگتے ہیں جو ملک کی دیگر قومیتوں کو حاصل ہیں۔

XS
SM
MD
LG