پنجاب حکومت مالی سال برائے 2022۔23 کا سالانہ میزانیہ ایوان میں نہ پیش کر سکی۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالٰہی نے رولنگ دی کہ بجٹ کو پیش کرنے کے لیے ایوان میں آئی جی پولیس اور،چیف سیکرٹری کا موجود ہونا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر وہ بجٹ پیش نہیں ہونے دیں گے۔ جس کے بعد پنجاب اسمبلی کا اجلاس 14 جون بروز منگل دوپہر ایک بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مختلف مسائل پر اتفاق رائے نہ ہونے پر پنجاب کا آئندہ مالی سال برائے 2022۔23 کا میزانیہ ایوان میں پیش نہ کیا جا سکا۔ پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس پیر کے روز سہہ دو بجے شروع ہونا تھا۔ اجلاس سے قبل اسپیکر پنجاب اسمبلی کی زیرِ صدارت بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔
حزبِ اختلاف کے ارکان نے پی ٹی آئی کے اسلام آباد کی طرف مارچ کے موقع پر اُن کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات، گرفتاریوں اور اسمبلی ملازمین کی گرفتاریوں پر احتجاج کرتے ہوئے حکومتی ارکان پر واضح کیا کہ جب تک اُن کے خلاف مقدمات ختم نہیں ہوں گے حکومت کو بجٹ اجلاس پیش نہیں کرنے دیں گے۔
بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں حکومتی اراکین کی طرف سے ملک احمد خان، خواجہ سلمان رفیق، رانا مشہود احمد، ملک ندیم کامران، اور طاہر خلیل سندھو ، جب کہ حزبِ اختلاف کی طرف سے راجہ بشارت راجہ، محمود الرشید اور چودھری ظہیر الدین شامل تھے۔
ذرائع کے مطابق بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس کی دو مختلف نشستوں میں ایک مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق رائے پیدا ہو گیا۔ جس کے بعد چھ گھنٹے سے زائد تاخیر کے بعد پنجاب اسمبلی کا اجلاس اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی صدارت میں شروع ہوا۔ بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے فیصلے کے مطابق بجٹ پیش ہونے سے قبل اپوزیشن اراکین لانگ مارچ میں ہونے والی گرفتاریوں اور پولیس کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف ایوان میں اظہار خیال کرنا تھا۔
اس موقع پر حزب اختلاف کے ارکان نے اعتراض اٹھایا کہ آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری سرکاری افسران کی گیلری میں موجود نہیں ہیں۔ اِسی دوران اپوزیشن کے رکن چوہدری ظہیرالدین نے صوبائی وزیر عطاءاللہ تارڑ کی ایوان میں موجودگی پر اعتراض اٹھایا کہ وہ منتخب رکن اسمبلی نہیں ہیں اس لیے وہ ایوان میں نہیں بیٹھ سکتے۔
جس پر اسپیکر پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے رولنگ دی کہ عطاء تارڑ ایوان سے باہر چلے جائیں لیکن وہ حکومتی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ جس پر اسپیکر نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کرتے ہوئے ہدایت دی گئی کہ وہ عطاء تارڑ کو ایوان سے باہر لے جائیں۔ اس پر ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔
حکومتی ارکان عطاءاللہ تارڑ کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔دوسری طرف اپوزیشن اراکین نے گو تارڑ گو کے نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ اس دوران حکومتی رکن رانا مشہود احمد نے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی سے کہا کہ وہ سارجنٹ ایٹ آرمز کو واپس بلا لیں۔صوبائی وزیر خود چلے جائیں گے۔ اس کے ساتھ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس دس منٹ کیلئے ملتوی کر دیا۔
بعدازاں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو آئی جی پنجاب پولیس اور چیف سیکرٹری اسمبلی گیلری میں موجود نہیں تھے۔ جس پر اسپیکر نے رولنگ دی کہ دونوں افسران کو اسمبلی میں طلب کیا جائے بصورتِ دیگر وہ بجٹ پیش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پچھلے بجٹ کے وقت آئی جی پولیس،،چیف سیکرٹری اور تمام محکموں کے سیکرٹری صاحبان ایوان میں موجود رہتے تھے۔ موجودہ حکومت کی آئی جی اور چیف سیکرٹری کو ایوان میں بلانے کی ہمت نہیں ہو رہی۔
جس پر ملک احمد خان نے اسپیکر سے کہا کہ وہ بجٹ پیش ہونے دیں۔ کل آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری دونوں ایوان میں موجود ہوں گے۔ لیکن اسپیکر نے اُن کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اجلاس 14 جون کو دن کے ایک بجے تک ملتوی کر دیا۔
خیال رہے پنجاب اسمبلی کا بجٹ ایوان میں پیش ہونے سے قبل ہی محکمہ خزانہ پنجاب نے منگل کے دِن گیارہ بجے پوسٹ بجٹ کانفرنس کا دعوت نامہ ذرائع ابلاغ کو جاری کر دیا تھا۔