پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمعے کو پیش کیے گئے بجٹ کے بعد ایک جانب حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور بعض حلقوں کی جانب سے اس پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے، تو دوسری جانب وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل خود بھی یہ اقرار کر چکے ہیں کہ آئی ایم ایف بعض بجٹ تجاویز پر خوش نہیں ہے اور وہ اپنے اُن مطالبات پر قائم ہے جس کے تحت حکومت کو بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے محصولات کو مزید بڑھانا ہوگا۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی تجویز پر عمل کرنے کے بجائے پیش کردہ بجٹ میں نہ صرف ذاتی انکم ٹیکس کی شرح نہیں بڑھائی، بلکہ چھ لاکھ روپے تک ماہانہ آمدنی والوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ کرکے 12 لاکھ روپے سالانہ سے زائد آمدنی والوں پر ٹیکس عائد کیا ہے۔
صرف آئی ایم ایف ہی نہیں بلکہ کئی مبصرین کی رائے میں بجٹ تجاویز پر سرمایہ کاروں کی جانب سے بھی منفی رائے سامنے آئی ہے۔ اس کی عکاسی پیر کو اسٹاک مارکیٹ میں 1134 پوائنٹس کی کمی سے بخوبی ہوتی ہے جب کہ حکومت کی جانب سے کپیٹل گین ٹیکس بڑھائے جانے کی تجویز پر بھی سرمایہ کاروں نے منفی ردِ عمل دیا ہے۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا پیر کو کاروبارکے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس 40 ہزار 879 پر بند ہوا۔ مارکیٹ انڈیکس 19 ماہ کے کم ترین درجے کے قریب پہنچ چکی ہے۔
جاری کھاتوں کے بڑھتے ہوئے خسارے اور زرِ مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کی وجہ سے پاکستان میں روپے کی قدر میں بھی مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے اور پیر کو انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر مزید مہنگا ہوکر 203 روپے 85 پیسے کا ہوگیا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ
معاشی ماہرین کی رائے میں پاکستان اور اس جیسے ممالک پر روس اور یوکرین جنگ کے سائے معاشی عدم استحکام لانے کا باعث بن رہے ہیں۔
ماہرِ معاشیات شہریار بٹ کے مطابق اس وقت روس اور یوکرین جنگ کے اختتام کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور اس وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں مزید اضافے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی منڈی میں تیل مہنگا ہونے کا مطلب پاکستان کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ توانائی یعنی بجلی کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ ہے۔ کیوں کہ ملک میں بجلی کی بڑی مقدار درآمد کیے گئے کوئلے، ایل این جی اور تیل سے پیدا کی جاتی ہے۔ ان کے بقول دوسرے الفاظ میں آنے والے مہینوں میں بھی اجناس کی قیمتیں عالمی منڈی میں سستی ہونے اور اس سے پاکستان کو کسی قسم کا فائدہ ہونے کی توقع کم ہی ہے۔
سبسڈی میں مزید کمی کا امکان
حکومت بھی یہ تسلیم کرتی دکھائی دیتی ہے کہ عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافے کا پاکستان پر اثر ہوگا۔ وفاقی وزارتِ خزانہ کی جانب سے بجٹ دستاویزات کے ساتھ قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے پاکستان کی مثبت معاشی آؤٹ لک متاثر ہونے کا اندیشہ ہے کیوں کہ اس سے تیل اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ عالمی تجارت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
دستاویز کے مطابق ایسی صورتِ حال میں ملک کے جاری کھاتوں کو مزید دھچکے لگ سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے معاشرے کے نچلے طبقات کو دی جانے والی سبسڈیز میں بھی کمی آ سکتی ہے۔
گندم کی درآمد پر ڈیڑھ ارب ڈالر کا خرچ
پاکستان میں رواں سال موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے گندم بھی ہدف سے کم پیدا ہوئی ہے، جس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے 30 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر تک لگ سکتے ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے سے پاکستان کو اس وقت غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے۔
اس وقت حکومت کے پاس بمشکل دو ماہ کی درآمدات کی رقوم موجود ہیں جب کہ ملک کے اندر بھی افراطِ زر کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بڑھ کر 13.8 فی صد ہو چکی ہے۔
انڈونیشیا اور قطر سے مذاکرات جاری
سپلائی چین کو یقینی بنانے کے لیے حکومت انڈونیشیا سے مذاکرات کر رہی ہے تاکہ ملک کے لیے خوردنی تیل کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے جب کہ توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومت قطر سے موخر ادائیگیوں پر ایل این جی خریدنے کے معاہدے کی تیاری کررہی ہے۔
حکومت کی معاشی ٹیم کے مطابق پاکستان کو آئندہ ایک سال میں بین الاقوامی اداروں کی ادائیگیوں کے لیے 41 ارب ڈالر کی خطیر رقم کی ضرورت ہے۔
اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض کے پروگرام کے تحت 90 کروڑ ڈالر کی اگلی قسط کا حصول یقینی بنانا ہے۔
اس قسط کے حصول کے لیے حکومت کو عالمی مالیاتی ادارے کی تمام شرائط ماننا ضروری ہیں جس کے بعد ہی قرض کا حصول آسان ہوسکتا ہے۔
معاشی بہتری کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے
معاشی ماہرین ملک میں معاشی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت پر بھی زور دے رہے ہیں۔
معاشی ماہر سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی پالیسیوں میں تسلسل ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف چند ماہ میں اسٹاک مارکیٹ پانچ ہزار دو سو پوائنٹس سے زائد گر چکی ہے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ سرمایہ کار سیاسی غیر یقینی کی فضا میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں ہے۔
ان کے مطابق یہی معاملہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ بھی ہے جو ملک میں بڑی کنزیومر مارکیٹ ہونے کے باوجود بھی سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں نہیں معلوم کہ آنے والے دنوں میں ان کے کاروبار پر سیاسی فیصلوں کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
حکومت غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے پریشان
قومی اسمبلی کے ایوان میں پیش کردہ دستاویز میں حکومت کا کہناہے کہ مقامی سیاسی غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے معاشی عدم توازن پیدا ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں حکومت کو شرح سود بڑھانے اور دیگر اقدامات کے تحت طلب کا دباؤ کم کرنا پڑسکتا ہے۔ جس سے آنے والے برسوں میں ملک کی معاشی نمو میں کمی واقع ہوگی۔
سرکاری دستاویز کے مطابق اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں بھی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 13.8 فی صد سالانہ، برِ اعظم ایشیا میں دوسری تیز ترین شرح ہے جب کہ اقتصادی ماہرین اس میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ 20 سے 23 فی صد تک جا سکتی ہے۔