علی رانا
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی جیلوں میں گنجائش کم اور قیدی بہت زیادہ موجود ہیں۔
پنجاب میں 4 ہزار 346 قیدی پھانسی کی سزا پر عمدرآمد کے منتظر ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 57 قیدی ایسے بھی ہیں جو دماغی معذور ہیں۔
پنجاب کی مختلف جیلوں میں مجموعی طور پر 913خواتین قیدی ہیں ۔ قیدیوں کو تین دن اپنی اپنی بیگمات اور بچوں سے ملانے کیلئے منصوبہ شروع کرنے کا ایک منصوبہ زیر غور ہے۔
انسپکٹر جنرل پنجاب جیل خانہ جات کی طرف سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبے کی کل 40 جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش 30 ہزار 331 جب کہ ان جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 47 ہزار 674 ہے۔
ان میں سے 4 ہزار 346 ایسے قیدی موجود ہیں جن کی سزائے موت کنفرم ہوچکی ہےاور وہ اپنی سزا پر عمل درآمد کے منظر ہیں۔
پاکستان کی سرپیم کورٹ نے ملک بھر کی جیلوں میں خواتین کی حالت زار پر از خود نوٹس لے رکھا ہے۔
رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ 2 ہزار 768 قیدیوں کی گنجائش کی 3 مزید جیلیں تعمیر کی جائیں گی جن پر 3 ارب 42 کروڑ 70 لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ ہوگی۔
لاہور، ملتان اور فیصل آباد کی جیلوں میں 54 فیملی رومز بمعہ باورچی خانہ اور باتھ رومز تعمیر کئے گئے ہیں، جہاں پر پانچ سال سے زیادہ قید کی سزا پانے والے ملزمان ہر 3 ماہ میں ایک مرتبہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تین دن قیام کرسکیں گے۔
پاکستان میں اداروں کے خلاف شکایات سننے کےلئے قائم ادارے وفاقی محتسب نے بھی راولپنڈی کی سب سے بڑی جیل اڈیالہ جیل میں خواتین قیدیوں کی حالت زار سے متعلق رپورٹ تیار کی ہے۔
وفاقی محتسب کی اس رپورٹ میں جیلوں میں خواتین کی حالات زار پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں خواتین کےلئے تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں۔ جیل میں سڑنے والی خواتین کو سستے اور فوری انصاف کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوعمر لڑکیاں کپڑے چوری کرنے جیسے معمولی جرائم میں قید ہیں۔ لڑکیوں کا والدین سے رابطہ ہے نہ ہی انصاف ملنے کی امید۔ قیدی لڑکیوں کو کوئی قانونی مدد بھی فراہم نہیں کی گئی۔ اڈیالہ میں 150 خواتین اور ان کے 59 بچے قید ہیں۔
گزشتہ سال داخلہ امور کے بارے میں پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ کہ ملک کی مختلف جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ رات کے وقت بدسلوکی کی جاتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ اس طرح کے واقعات جیل کے عملے کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہوسکتے اور اب تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔