رسائی کے لنکس

عمران خان پر حملہ: ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟


پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لانگ مارچ پر فائرنگ کو تین روز گزر جانے کے باوجود واقعہ کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا جس پر سیاسی اور قانونی حلقے سوالات اُٹھا رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حال ہی میں چوہدری پرویز الہٰی نے گجرات کو ڈویژن کا درجہ دلوایا ہے اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کا ہر ڈویژن میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی ہوتا ہے۔ لہذٰا وہاں بھی یہ مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ لیکن فی الحال وہاں بھی مقدمے کا اندراج ممکن نہیں ہو سکا۔

سی ٹی ڈی گوجرانوالہ اور گجرات کے افسران کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں اور گرفتار ملزم نوید سمیت متعدد زیرِ حراست مشکوک افراد سے پوچھ گچھ بھی کی گئی ہے۔ لیکن ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی اس حوالے سے وہ بھی خاموش ہیں۔

تحریک انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی قانونی ٹیم اور مقامی عہدے دار مقدمہ درج کرانے تھانہ سٹی وزیرِ آباد گئے، لیکن اُن کے بقول پولیس نے درخواست وصول کرنے سے انکار کیا جس پر تھانے کے باہر احتجاج کیا گیا۔

پی ٹی آئی کے رہنما زبیر نیازی نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد ملزمان کے خلاف ہی مقدمہ درج کرائیں گے اور کسی صورت اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ہفتے کو شوکت خانم اسپتال کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما تحریکِ انصاف شبلی فراز نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ لیکن ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی، کیوں کہ درخواست میں ایسے نام ہیں جنہیں دیکھ کر تھانے والے بھی گھبرا رہے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی بھی عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ درخواست میں سے کچھ نام نکال لیں؟ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اُس وقت تک تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی جب تک شفاف تحقیقات نہ ہو جائیں۔


ہمیں تو درخواست ملی ہی نہیں: پولیس کا مؤقف

پولیس نے اتنے ہائی پروفائل کیس کا تاحال مقدمہ کیوں نہیں درج کیا؟ جب یہ سوال وزیر آباد پولیس کے افسران سے پوچھا تو اس بارے میں پولیس نے موقف اختیار کیا کہ جب پی ٹی آئی کی ٹیم مقدمہ درج کروانے کے لیے تھانے آئی ، اس وقت بجلی بند تھی جس وجہ سے ہم ان کی درخواست وصولی کا کمپیوٹر پر اندراج کرنے سے قاصر تھے۔

ڈی پی او گجرات سید غضنفر شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ یہ سی ٹی ڈی کا کیس ہے اور وہی اس کا مقدمہ درج کریں گے ، تاہم اگر آئی جی پولیس ہمیں حکم دیں گے تو ہی ہم اس کا مقدمہ درج کریں گے۔

ماہرین کے مطابق وزیرِ اعلٰی پنجاب نے اس معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کر رکھا ہے اور جب جے آئی ٹی کے پاس معاملہ چلا جائے تو پھر مقدمہ سی ٹی ڈی درج کرتی ہے۔

مقدمہ متنازع کیوں بن گیا؟

اس معاملے میں پی ٹی آئی کی قیادت پولیس سے بھی نالاں دکھائی دیتی ہے اور آئی جی پنجاب کو عہدے سے ہٹانا کا مطالبہ بھی سامنے آ رہا ہے جس کی وجہ آئی ایس آئی کے حاضر سروس افسر کا مقدمے میں نام شامل نہ کرنا بتائی جا رہی ہے۔

عمران خان نے بھی جمعے کو اپنی پریس کانفرنس میں شہبا زشریف، رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی کے افسر میجر جنرل فیصل نصیر کو حملے کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا اعلان کیا تھا۔

عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم جو لوگ قانون سے اُوپر بیٹھے ہیں۔ اُن کے خوف سے ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔

مقدمہ کے اندراج میں تاخیر پر قانون کیا کہتا ہے؟

سینئر ایڈووکیٹ شاہد اسلام ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ضابطہ فوج داری کی دفعہ 154 کے تحت ایس ایچ او کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی قابل دست اندازی جرم کی اطلاع ملنے پر فوری مقدمہ درج کرے گا ، ایس ایچ او مقدمہ درج کرنے کا پابند ہے۔

اُن کے بقول اس واقعے میں دہشت گردی ہوئی ہے اس لیے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعات چھ اور سات کا اندراج بھی ایف آئی آر میں کیا جائے گا۔

شاہد اسلام ایڈووکیٹ نے کہا کہ چونکہ اس واقعے میں حساس ادارے کے حاضر سروس آفیسر کو نامزد کیا گیا ہے۔ لہذٰا اگر معاملہ عدالت میں جائے تو پھر عدالتی حکم پر بھی ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG