روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے امریکہ کے ان تازہ دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ کریملن واشنگٹن میں ہونے والے سائبر حملوں میں ملوث ہے۔
پوتن نے روس کی طرف سے آئندہ ماہ ہونے والے امریکی انتخابات میں کسی بھی مداخلت کی صورت میں، امریکہ کی جوابی کارروائی کی دھمکی کو مذاق میں اڑا دیا۔
پوتن نے اتوار کو بھارت میں ایک نیوز کانفرنس میں بات کرتے ہوئے ہیکنگ کے الزامات کو امریکی شہریوں کی توجہ ان کے ملک کو درپیش "بہت سارے مسائل" سے ہٹانے کی کوشش قرار دیا۔
پوتن کا یہ بیان امریکہ کی نائب صدر جو بائیڈن کے اس بیان کے دو دن کے بعد سامنا آیا جس میں انہوں نے متنبہ کیا کہ ہم پوتن کو "ایک پیغام بھیج رہے ہیں۔"
انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے 'این بی سی نیوز' کو جمعہ کو بتایا روس کے سائبر حملوں کا امریکہ کی طرف سے جواب ’’ وقت کا انتخاب ہم خود کریں گے اور یہ ان حالات میں ہو گا جب اس کا بھر پور اثر ہو گا۔"
پوتن نے اتوار کو کہا کہ "آپ ہمارے امریکی دوستوں سے کسی بھی بات کی توقع کر سکتے ہیں۔" انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ پہلے ہی سب کو معلوم ہے کہ " امریکہ کے سرکاری ادارے ہر ایک کی جاسوسی کر رہے ہیں۔"
ولادیمرپوتن کا یہ تازہ بیان سات اکتوبر کو امریکہ کے ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹلیجنس اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے سربراہ کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری ہونے والے اس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں ماسکو پر باضابطہ طور پر امریکہ کے سیاسی نظام کی ہیکنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
ان الزامات کا تعلق ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے ای میل اکاؤنٹس پر ہیکنگ حملوں سے ہے۔ ماسکو پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے ہیک کیے جانے والے اکاؤنٹس سے حاصل ہونے والی معلومات کو خفیہ معلومات افشا کرنے والی متنازع تنظیم وکی لیکس کے ذریعے مبینہ طور پر جاری کروانے میں بھی کردار ادا کیا۔
پوتن نے اتوار کو کہا کہ "میں اپنے امریکی دوستوں اور شراکت داروں سمیت ہر ایک کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں۔ ہم امریکہ کی انتخابی مہم پر اثر انداز ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔"
کریملن کو پہلی بار امریکہ کے سیاسی نظام کی ہیکنگ سے متعلق جولائی میں جوڑا گیا جب ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کی مہم کے اسٹاف نے ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے ای میلز کو ہیک کرنے کا الزام ماسکو پر عائد کیا۔
اس مبینہ واقع کے بعد سے کئی مغربی مبصرین کریملن پر ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی نومبر کے انتخابات میں حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں اس سلسلے میں وہ ٹرمپ کے ان بیانات کا حوالہ دیتے ہیں جس میں وہ پوتن کی تعریف کرتے ہوئے دو طرقہ قریبی تعلقات کی بات کرتے رہے ہیں۔