روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین کی حکومت کو اپنے مشرقی علاقے میں جاری علیحدگی پسند تحریک کا مسئلہ مذاکرات سے حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
جمعے کو روس کے جنوبی شہر سوچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ کِیو حکومت ملک کے مشرقی علاقوں میں جاری خانہ جنگی اور تنازع کے حل کے لیے مخالفین سے بات چیت کرنے میں سنجیدہ ہے۔
اپنے خطاب میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے "بزعمِ خود فاتحین" نے دنیا کا روایتی نظامِ توازن الٹ کر رکھ دیا ہے اور امریکہ پوری دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ یوکرین کے سابق صدر وکٹر یونو کووچ کے خلاف ہونے والی بغاوت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شرارت تھی اور مغربی دنیا نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے کے لیے یوکرین کو اکھاڑا بنا دیا ہے۔
صدر یونو کووچ روس کے قریبی اتحادی تھے لیکن رواں سال حزبِ اختلاف کے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں انہیں اپنی حکومت چھوڑ کر روس میں پناہ لینا پڑی تھی۔
ان کے بعد کِیو میں برسرِ اقتدار آنے والی حکومت یورپ نواز ہے جو روس کے تحفظات کے علی الرغم سابق سوویت ریاست کے یورپی یونین کے ساتھ الحاق کی خواہش مند ہے۔
اپنے خطاب میں روسی صدر کا کہناتھا کہ یوکرین کے سابق صدر یونو کووچ کے خلاف مغرب کی ایما پر چلنے والی احتجاجی تحریک نے یوکرین کو افراتفری اور خانہ جنگی سے دوچار کردیا ہے جس کے نتیجے میں انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔
روسی صدر نے جمعے کو جرمن چانسلر اینجلا مرکل کے ساتھ بھی ٹیلی فون پر بات چیت کی جس میں دونوں رہنماؤں نے یوکرین کے بحران پر تبادلۂ خیال کیا۔
جرمن چانسلر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق انہوں نے بات چیت کے دوران روسی صدر پر زور دیا کہ وہ مشرقی یوکرین کے روس نواز علیحدگی پسندوں اور کِیو حکومت کے درمیان گزشتہ ماہ طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔
دوسری جانب روسی حکومت کے صدر دفتر 'کریملن' سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق صدر پیوٹن نے جرمن چانسلر پر زور دیا کہ مشرقی یوکرین کے علاقوں دونیسک اور لوغانسک میں کشیدگی کے خاتمے اور وہاں امداد کی فراہمی کے لیے وہ یوکرینی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔