روس کے صدر ولادیمر پوتن نے کہا ہے کہ امریکہ کو ترکی کی طرف سے مار گرائے جانے والے روسی لڑاکا طیارے کے راستے کا علم تھا اور اسے چاہیئے تھا کہ وہ اپنے اتحادی ترکی کو اس بارے میں مطلع کرتا۔
"امریکہ، جو کہ اس اتحاد کی قیادت کر رہا ہے جس کا ترکی بھی حصہ ہے، کو ہمارے طیاروں کی پروازوں اور منصوبوں کا علم تھا ہم اسی وقت نشانہ بنے۔"
ماسکو میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے یہ معلومات امریکیوں کو کیوں دیں اگر اس نے اس کا تبادلہ اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ نہیں کرنا تھا۔"
امریکہ اور روس نے ایک معاہدہ کر رکھا ہے جس کا مقصد شام میں کارروائیوں کے دوران ایک دوسرے کے طیاروں کے آمنے سامنے آنے سے بچنا ہے۔
ترکی کا موقف ہے کہ اس نے متعدد بار روسی طیارے کو اپنی فضائی حدود سے نکل جانے کے لیے متنبہ کیا تھا۔
دریں اثناء ماسکو اور انقرہ میں لفظوں کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ پوتن کا کہنا تھا کہ ترکی کی طرف سے روسی طیارہ مار گرایا جانا ایک ایسی ریاست کی طرف سے دھوکہ دہی ہے جسے وہ اپنا دوست سمجھتا تھا۔
"کیا ہم نے اس بارے میں سوچا کہ ہم اپنے طیاروں کے تحفظ کا نظام وضع کرتے۔"
روس نے بدھ کو ہی اعلان کیا تھا کہ وہ شام کے صوبہ الاذقیہ میں ایس-400 میزائل سسٹم بھیج رہا ہے۔ اس صوبے کی سرحد ترکی سے ملتی ہے۔
پوتن کا کہنا تھا کہ یہ "ناممکن" ہے کہ ترکی کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ روسی طیارہ تھا۔ "اگر وہ امریکی طیارہ ہوتا، تو کیا وہ امریکیوں کو بھی نشانہ بناتے۔ اس کے بجائے ہمیں یہ سننے کو مل رہا ہے کہ ان کے پاس معذرت کا کوئی جواز نہیں۔"
سی این این سے ایک انٹرویو میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک لڑاکا طیارہ مار گرائے جانے پر معذرت نہیں کرے گا۔
" میرا خیال ہے کہ ہمیں نہیں کسی اور کو معذرت کرنی چاہیے۔ انھیں جنہوں نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی معذرت کرنی چاہیے۔"
فرانس 24 ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ترک صدر نے قدرے مصالحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ " اگر ہمیں علم ہوتا کہ یہ روسی طیارہ ہے تو شاید ہم مختلف انداز میں ردعمل کا اظہار کرتے۔ لیکن ہمارے پائلٹس کو حکمت عملی کا پتا ہے کہ ترک فضائی حدود کا تحفظ کرنے کے لیے انھیں کیا کرنا ہے۔"
اردوان کا کہنا تھا کہ روسی صدر ولادیمر پوتن کو "جو کچھ ہوا اس پر بات کرنی چاہیے"، لیکن ان کے بقول روسی رہنما نے "میری کالز کا جواب نہیں دیا۔"