لندن میں قائم خریدو فروخت پر نظر رکھنے والی ایک کمپنی کپلر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اس کےاندازوں کے مطابق گزشتہ سال ایران کی تیل کی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ اس کے باوجود ہوا کہ ایرانی تیل کی فروخت پر امریکی پابندیاں برقرار تھیں۔
بدھ کے روز پیرس سے ایک فون انٹرویو میں، کپلر کے تیل سے متعلق ایک سینئر تجزیہ کار ہمایوں فلک شاہی نے کہا کہ ان کے گروپ کا اندازہ ہے کہ ایران کی خام تیل اور گیس کی اوسط برآمدات 2021 میں 6 لاکھ 68 ہزار بیرل یومیہ سے بڑھ کر گزشتہ سال 9 لاکھ بیرل یومیہ ہوگئیں۔ اس طرح 2022 میں تقریباً 35 فی صد اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کپلر ان تخمینوں کا حساب لگانے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتا ہے، جیسے آئل ٹینکرز کے خودکار شناختی نظام کا ڈیٹا، سیٹلائٹ کی تصویریں، اور بندرگاہوں پر اہل کاروں کی فراہم کردہ معلومات وغیرہ۔
ایران امریکی پابندیوں سے بچنے کے لئےایندھن کی برآمدات کے سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کرتا۔
ایران کی تیل کی برآمدات پر پابندیاں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے کے بعد 2018 میں لگائی تھیں۔
نومبر میں، ایران کی سرکاری نیوز سائٹ کیہان نے ایران کے وزیر تیل جواد اوجی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تہران کے خام تیل، گیس اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات کی برآمدات ایرانی کیلنڈر کے مطابق مارچ 2018-مارچ 2019 کے بعد سے بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بارے میں اعداد و شمار نہیں دیے۔
فلک شاہی نے وائس آف امریکہ کے فلیش پوائنٹ ایران پوڈ کاسٹ کے لیے 11 جنوری کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے فون انٹرویو میں ایران کی ایندھن کی فروخت میں اضافے کے عوامل اور دیگر پہلوؤں پر بات کی۔
فلک شاہی کا کہنا تھا کہ ہم نے 2022 کے دوسرے نصف حصے میں چین میں تیل کی درآمد میں ایک نمایاں اضافہ دیکھا اور یہ درآمد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے، لہذااگر چین زیادہ تیل خریدتا ہے تو اس کا مطلب ہے ایران زیادہ تیل برآمد کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین پر روس کے حملے نے بھی ایرانی تیل کی برآمد بڑھانے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ہم بھارت اور کئی دوسرے ملکوں میں روسی تیل کے استعمال میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے روسی اور ایرانی تیل خطے کے ملکوں میں جا رہا ہے۔ امریکہ غالباً اس لیے نظرانداز کر رہا ہے کہ تیل کی عالمی منڈی میں کہیں قیمتوں میں اضافہ نہ ہو جائے، جس سے دنیا بھر کی معیشتوں پر دباؤ بڑھ جائے گا۔
کپلر کے تجزیہ کار فلک شاہی کا کہنا تھا کہ اگر تیل کی برآمد سے ایران کو حاصل ہونے والی آمدنی پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ایران کو اس کے تیل کی کیا قیمت مل رہی ہے۔ کیونکہ عالمی مارکیٹ اور ایرانی تیل کی قیمتوں میں فرق ہو گا اور وہ رعایتی نرخوں پر فراہم کر رہا ہو گا۔ فرض کریں کہ یہ قمیت 65 اور 70 ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ ہے تو اس سے 2022 میں ایران کو 20 سے 25 ارب ڈالر تک حاصل ہو سکتے ہیں۔
(وی او اے نیوز)