پاکستانی عوام اور خواص کی عرب حکمرانوں سے عقیدت کی تاریخ خاصی پرانی ہے اور اس عقیدت کے مظاہرے پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں، کہیں سڑکوں اور کالونیوں تو کہیں عمارات اور تعلیمی اداروں کی صورت میں بکھرے ہوئے ہیں۔
لاہور میں و اقع پاکستان کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم بھی ایک ایسے ہی سابق عرب حکمراں معمر قذافی سےمنسوب ہے جو ایک زمانہ میں اپنے ملک میں "عظیم قائد" اور پاکستان میں "بہترین دوست" کی حیثیت سے جانا جاتا تھا لیکن اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہر دو حیثیتوں سے معزول ہلاک ہوا۔
لاہور میں اس اسٹیڈیم کا افتتاح نومبر 1959ء میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے گئے ٹیسٹ میچ سے ہوا تھا۔ اس وقت یہ 'لاہور اسٹیڈیم' ہوا کرتا تھا اور کئی برسوں تک اس کی یہی شناخت برقرار رہی۔
فروری 1974ء میں پاکستان کے اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر لاہور میں اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کا سربراہی اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں لیبیا کے جوان اور جوشیلے فوجی حکمران معمر قذافی نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی پاکستانی خواہش کا زبردست دفاع کیا۔
اس پرجوش تھپکی کا جواب پاکستانی اشرافیہ نے ملک کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم کو ان کے نام سے معنون کرکے دیا۔ لیکن لیبیا آج بھی کرکٹ کے لیے ایک اجنبی سرزمین ہے۔
آنے والے دنوں میں پاکستانی عوام میں یہ افواہیں بھی سنی جاتی رہیں کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے قذافی نے یورینیم لیبیا سے کہوٹہ بھجوائی ہے۔
عقیدت و محبت کے ان ہی ملے جلے جذبات کے غلبے کے باعث اس نام کی اجنبیت زیادہ دیر برقرار نہ رہی اور قذافی اسٹیڈیم بھی کرکٹ کے شیدائی پاکستانی عوام و خواص کے لیے "غلط العام فصیح" ہوگیا۔
لیکن رواں برس جب "بہارِ عرب" کی ہوائیں طرابلس پہنچیں اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والی عوامی احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے معمر قذافی نے اپنے ہی عوام کے خلاف پرتشدد ہتھکنڈے اپنائے تو پاکستانیوں پر چھائے عقیدت کے بادل چھٹتے نظر آئے۔
قذافی کی چار عشروں طویل حکمرانی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر ڈھائے گئے مظالم کی خبریں جب ذرائع ابلاغ میں آئیں تو پاکستان کے بعض حلقوں کی جانب سے بھی یہ مطالبہ سامنے آنے لگا کہ عوامی حقوق کو سلب کرنے اور آمرانہ طرز حکمرانی اختیار کرنے والے قذافی سے منسوب اس اسٹیڈیم کا نام تبدیل کیا جائے۔
قذافی کے لیے پاکستانیوں کی حمایت میں اصل کمی اس وقت آئی جب رواں برس 22 فروری کو انہوں نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے مظاہرین کو "لال بیگ اور چوہا" قرار دیا اور کہا کہ لیبیا کو پاکستان یا افغانستان نہیں بننے دیا جائے گا۔
ان کےا س بیان کے ردِ عمل میں کئی پاکستانی اخبارات میں تنقیدی کالم بھی لکھے گئے جس میں انہیں ایک "غاصب" اور "آمر" قرار دیتے ہوئے اقتدار چھوڑنے کے مشوروں سے نوازا گیا۔
لیکن 'قذافی اسٹیڈیم' کے حوالے سے پہلا باقاعدہ مطالبہ ایک انگریزی روزنامے 'دی ایکسپریس ٹریبیون' کی ویب سائٹ پر 25 فروری کو شائع ہونے والے ایک بلاگ میں سامنے آیا جس میں مصنف نے اسٹیڈیم کو ایک "آمر عرب حکمران" کے نام سے مزید منسوب رکھنے کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔
اس کے اگلے ہی روز موقر انگریزی روزنامے 'ڈان' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھی پاکستان کے ساتھ "قذافی کی طویل مخاصمت" کی مثالیں دے کر اصرار کیا گیا کہ 'قذافی اسٹیڈیم' کا نام دوبارہ 'لاہور اسٹیڈیم' رکھ دیا جائے۔
بعد ازاں، کئی آن لائن فورمز اور بلاگز پر یہ بحث جاری رہی اور ہنوز جاری ہے کہ 60 ہزار نشستوں کے حامل پاکستان کے اس سب سے بڑے اسٹیڈیم کا نام تبدیل کیا جانا چاہیئے یا نہیں۔ اس ضمن میں چند ماہ قبل ایک ویب سائٹ پر ہونے والے 'پول ' میں رائے دہندگان کی اکثریت نے اسٹیڈیم کو ماضی کے لیجنڈ کرکٹر اور حال کے سیاستدان عمران خان سے منسوب کرنے کی حمایت کی۔
لیکن اگر 'قذافی اسٹیڈیم' کا نام تبدیل کرانے کے خواہاں حلقے اپنے اس مطالبے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں "زمینی سیاسی حقائق" کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔
قذافی اسٹیڈیم کا انتظام چوں کہ 'پاکستان کرکٹ بورڈ' کے پاس ہے اور یہاں پی سی بی کا صدر دفتر بھی واقع ہے، لہذا اسٹیڈیم کے نام کی تبدیلی بھی بورڈ کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ اور چوں کہ بورڈ کے پیٹرن ان چیف صدرِ پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جنابِ آصف علی زرداری ہیں، چنا چہ کسی بھی فیصلے کی حتمی منظوری کا اختیار بھی انہیں ہی حاصل ہے۔