اسلام آباد ہائیکورٹ میں الیکشن ایکٹ میں شامل ختم نبوت شق میں تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران انکشاف کیا گیا ہے کہ ’’پاکستان میں10 ہزار 205 مسلمانوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا اور یہ افراد مذہب اسلام چھوڑ کر قادیانی ہوگئے ہیں‘‘۔
اس کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل رکنی بنچ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی۔
درخواست گزار کی جانب سے حافظ عرفات عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت ملک میں شہریوں کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے نادرا کی جانب سے ایک سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’دس ہزار دو سو پانچ افراد نے بطور مسلمان شناختی کارڈ تبدیل کرنے کے بعد قادیانی مذہب کا سٹیٹس اپنایا‘‘۔
عدالت نے ان 10ہزار205 افراد کی عمر، ولدیت اور بیرون ملک سفر کے حوالے سے نادرا سے رپورٹ طلب کی ہے۔
کیس کے دوران، پروفیسر حسن مدنی عدالتی معاونت کے لیے پیش ہوئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پروفیسر حسن مدنی سے استفسار کیا کہ کیا ایک شخص صرف پنجاب اسمبلی کی سیٹ حاصل کرنے کے لئے اپنا مذہب تبدیل کر دے تو اس پر اسلام کیا کہتا ہے۔ جس پر پروفیسر حسن مدنی نے کہا کہ ’’مذہب اسلام تبدیل کرنے والے کی سزا وہی ہے جو مرتد کی ہے‘‘۔
اس موقع پر پروفیسر حسن مدنی نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں مذہب تبدیل اور حکومت کی ذمہ داری سے متعلق حوالے دیئے۔ بقول اُن کے، ’’قادیانی نا مسلم ہیں نا عیسائی۔ قادیانی مسلمانیت کی کچھ چیزوں کو لیتے ہیں اور کچھ چیزوں کو مسخ کر دیتے ہیں‘‘۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پروفیسر حسن مدنی سے استفسار کیا کہ غیر مسلموں کا کب سے حرمین شرفین میں داخلہ بند کر دیا گیا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’’فتح ملکہ کے بعد غیر مسلم کا حرمین شرفین میں داخلہ بند کر دیا گیا ہے‘‘۔
پروفیسر حسن مدنی نے کہا کہ ’’قادیانی اپنی مذہبی کتابوں میں مسلمانوں کو گالی دیتے ہیں۔ قادیانی اپنی مذہبی کتابوں میں مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔‘‘
عدالت نے مسلمان سے قادیانی مذہب کا سٹیٹس حاصل کرنے والوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
پاکستان میں توہین مذہب کے حوالے سے سخت مذہبی جذبات پائے جاتے ہیں اور اس حوالے سے توہین مذہب کے قوانین میں کسی تبدیلی پر بھی سخت ردعمل دیکھنے میں آتا ہے۔
قادیانیت کے حوالے سے بھی ملک میں مذہبی حلقے سخت رویہ رکھتے ہیں اور انہیں عام معاشرتی ماحول سے باہر رکھا جاتا ہے۔