|
ویب ڈیسک — خلیجی ملک قطر کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے مذاکرات میں اپنے ثالثی کے کردار کو اس وقت تک معطل کر رہا ہے جب تک کہ فریقین ’آمادگی اور سنجیدگی‘ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو روکنے کے لیے کیے جانے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں جس کی وجہ سے قطر نے ثالثی کے کردار کو معطل کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق قطر کے اس فیصلے کے بعد یرغمالوں کی بازیابی کے احتجاج کرنے والے اسرائیلی مظاہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں ہفتے کو ہونے والے احتجاج میں ہزاروں مظاہرین شریک ہوئے جو پچھلے سال سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کے 400 دن گزرنے سے متعلق پوسٹرز تھامے احتجاج کر رہے تھے۔
احتجاج میں شریک مظاہرین نے ’یرغمالوں سے متعلق فوری معاہدہ‘ اور ’اپنے ہتھیار چھوڑو اور جنگ بند کرو‘ کے پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
احتجاج میں شریک روتی لیور کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ قطر کا کتنا اثر و رسوخ ہے تاہم ان کے بقول وہ قطر کے اس فیصلے سے بہت پریشان ہیں۔
گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر دہشت گرد حملہ کیا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک جب کہ لگ بھگ 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا جس کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی تھی جو ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔
اسرائیل کا ماننا ہے کہ حماس کے پاس ابھی بھی سو کے قریب یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 35 ہلاک ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ اور برطانیہ سے سمیت متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
دوسری طرف غزہ کی حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر کی جانے والی کارروائیوں کے دوران اب تک 43 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل میں ہر ہفتے یرغمالوں کی رہائی کے لیے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
قطر 2012 سے حماس کی سیاسی قیادت کی امریکی آشیر باد سے میزبانی کر رہا ہے۔
سات اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی جنگ کو ختم کرنے کے لیے مہینوں کی طویل سفارت کاری میں بھی قطر متحرک رہا ہے۔
تاہم مذاکرات جن میں قاہرہ اور واشنگٹن بھی ثالث ہیں۔ نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے بعد سے مذکرات متعدد بار تعطل کا شکار ہوئے ہیں جب کہ فریقین ایک دوسرے پر بات چیت میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔