پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کی بڑی سرکاری درسگاہ قائداعظم یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں لگ بھگ ایک ماہ سے معطل ہیں۔
اگرچہ یونیورسٹی اور وفاقی حکومت کی انتظامیہ نے کوشش کہ احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف کارروائی کر کے تدریسی عمل کو بحال کرایا جائے لیکن یہ کوششیں تاحال سود مند ثابت نہیں ہوئی ہیں۔
اب اس معاملے کو سلجھانے کے لیے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قانون ساز میدان میں آئے ہیں اور بدھ کو وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ نے جنوب مغربی صوبے سے تعلق رکھنے والے بعض دیگر قانون سازوں کے ہمراہ یونیورسٹی میں انتظامیہ سے ملاقاتیں کیں۔
رواں سال مئی میں قائدِاعظم یونیورسٹی میں سندھی اور بلوچ طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم اور فائرنگ کی وجہ سے 30 سے زائد طلبہ زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد بلوچ تنظیم سے تعلق رکھنے والے طالب علموں سمیت آٹھ طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا، جس کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس سراپا احتجاج ہیں۔
اس احتجاج میں شامل طالب علموں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے گزشتہ ماہ کے آخر میں اسلام آباد پولیس نے لگ بھگ 60 طلبہ کو حراست میں بھی لیا تھا۔
تاہم اُن کے دیگر ساتھیوں کی جانب سے یونیورسٹی میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف کی طرف سے بدھ سے تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کے اعلان کے باجود تدریسی عمل شروع نہیں ہو سکا۔
کیوں کہ احتجاج کرنے والے طالب علموں نے یونیورسٹی بسوں کے ٹائروں سے ہوا نکال دی اور گاڑیوں کو چلنے نہیں دیا جس کی وجہ طالب علم نہیں پہنچ سکے۔
احتجاجی طالب علموں کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی سے نکالے گئے تمام طلبہ کو بحال کیا جائے، لیکن یونیورسٹی کے اساتذہ بھی نکالے گئے طالب علموں کی بحالی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی کے ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر طالب علموں کو بحال کیا گیا تو پھر اس فیصلے کے استاد بھی احتجاج کر سکتے ہیں۔
تاہم اب وفاقی وزیر اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی مداخلت اور مسئلے پر بات چیت کے آغاز کے بعد یہ اُمید ہو چلی ہے کہ اس معاملے کو سلجھا لیا جائے گا۔
اس بارے میں بات چیت کہاں تک پہنچی یہ تو واضح نہیں لیکن وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور عبدالقادر بلوچ پر اُمید نظر آتے ہیں۔
’’اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ہم نکالنے کی کوشش کریں گے۔۔۔۔ کوشش ہماری پوری ہو گی کہ کل سے یونیورسٹی میں معمول کی سرگرمیاں شروع ہو جائیں۔۔۔۔ یہ ایک کوشش ہے اس کے بارے میں ابھی ہم کچھ نہیں بتا سکتے۔‘‘
یونیورسٹیوں سے متعلق حال ہی میں ایک نئی درجہ بندی کے مطابق قائداعظم یونیورسٹی کا شمار دنیا کی 500 بہتری درسگاہوں میں ہوتا ہے۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کی ایک اعلیٰ درسگاہ میں تشدد کے واقعات اور اس کے بعد یونیورسٹی میں تدریسی عمل کے معطل ہونے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ معاشرے بالخصوص نوجوانوں میں عدم برداشت کے رویے بڑھ رہے ہیں۔
جن سے نمٹنے کے لیے یونیورسٹوں کی انتظامیہ، اساتذہ اور معاشرے کے تمام طبقوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔