سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کا واقعہ مقامی اور عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے۔ لیکن واقعے کو کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود کچھ ایسے سوالات اُٹھ رہے ہیں جس کے تاحال واضح جوابات سامنے نہیں آ سکے۔
عمران خان پر حملہ انفرادی فعل تھا یا منظم سازش؟ حملہ آور کتنے تھے؟ کنٹینر پر کس نوعیت کے ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی؟ پی ٹی آئی کے ایک رہنما کو حملے کا پہلے سے کیسے پتا تھا؟ سیکیورٹی کی ذمے داری پنجاب حکومت کی تھی یا عمران خان کی اپنی سیکیورٹی بھی ساتھ تھی؟ تھانے کا عملہ معطل کیے جانے کے باوجود حملہ آور کا دوبارہ ویڈیو بیان کیوں جاری کیا گیا؟
ان سوالات کے لیے وائس آف امریکہ نے سابق پولیس افسران اور سینئر تجزیہ کاروں سے بات کی ۔
کس ہتھیار سے فائرنگ کی گئی؟
پولیس نے جائے وقوعہ سے مشتبہ حملہ آور کو حراست میں لے لیا ہے جس کے بقول اُس نے عمران خان کو مارنے کی نیت سے کنٹینر پر فائرنگ کی تھی۔ تحریکِ انصاف کا مؤقف ہے کہ صرف پستول سے نہیں بلکہ عمران خان پر آٹومیٹک ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق جائے وقوعہ سے 11گولیوں کے خول ملے ہیں۔ ان میں سے نو چھوٹی پستول اور دو بڑے اسلحے کی گولی کے خول ہیں۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد طاہر عالم خان کہتے ہیں کہ نائن ایم ایم پستول کے میگزین میں زیادہ سے زیادہ 20 گولیاں ڈالی جا سکتی ہیں، لیکن عام طور پر اس میں 18 گولیاں ڈالی جاتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نائن ایم ایم پستول میں10 گولیوں کا میگزین بھی ہوتا ہے جس میں آٹھ سے نو گولیاں بھری جاتی ہیں۔اس گن کو چلانے والا ماہر بہت تیزی کے ساتھ برسٹ فائر کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ میں بھی حملہ آور نے فائر کیا اور ہاتھ لگنے کی وجہ سے اس کی سمت تبدیل ہوگئی۔
جائے وقوعہ سے چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کے خول ملنے کے حوالے سے طاہر عالم کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ ان کے اپنے گارڈز اور پولیس اہلکار موجود تھے۔ جب ملزم نے فائر کیا تو عین ممکن ہے کہ انہوں نے جوابی فائر کیا ہو۔
انہوں ںے کہا کہ اس کیس میں کنٹینر کے سامنے کی چادر پھٹی ہوئی نظر آرہی ہے اس کا مطلب ہے کہ اس گن کا اثر اچھا خاصا تھا۔ البتہ اس میں فاصلے کا بھی کردار ہے۔
ان کے بقول، اسلحہ اور موقعے سے ملنے والی چیزوں سے بھی تفتیش میں بہت زیادہ مدد مل سکتی ہے۔
انگریزی اخبار 'دی نیوز' سے وابستہ سینئر تحقیقاتی صحافی شکیل انجم کہتے ہیں کہ اب تک جائے وقوعہ سے گولیوں کے جو خول ملے وہ بھی ایک ہی گن کے نہیں ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف گنز سے فائر ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کنٹینر کے اوپر جو گولی کا نشان ہے اس کو بھی چیک کرنا ضروری ہے کیوں کہ یوں لگتا ہے جیسے فائر کنٹینر کے اندر سے ہوا ہے۔ ان تمام باتوں کی تحقیق ہونا ضروری ہے۔
کیا حملہ آور ایک سے زیادہ تھے؟
حملے کے فوری بعد یہ اطلاعات بھی آتی رہیں کہ پولیس نے شہریوں کی مدد سے فائرنگ کرنے والے ایک شخص کو حراست میں لیا ہے، لیکن ایک فرار ہو گیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا کہ حملہ آور ایک سے زیادہ تھے، لیکن پولیس کی جانب سے تاحال اس معاملے پر بھی کوئی حتمی بیان سامنے نہیں آیا۔
طاہر عالم کے بقول، ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا حملہ آور بھی ہو لیکن فوٹیج میں اب تک صرف ایک ہی حملہ آور نظر آیا ہے جو اپنا جرم تسلیم کررہا ہے۔
طاہر عالم کہتے ہیں اس وقت آئی جی پنجاب پر بھاری ذمے داری ہے کہ وہ ان سوالات کے جوابات دیں، لیکن ان پر نہ صرف پنجاب حکومت بلکہ وفاقی حکومت کے علاوہ حساس اداروں کی جانب سے بھی شدید دباؤ ہو گا۔
اُن کے بقول آئی جی پنجاب کو چاہیے کہ وہ ان افراد کو شاملِ تفتیش کریں جن پر شک ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس میں اگر کوئی سازش ہے تو اسے بھی سامنے لانا لازمی ہوگا۔
طاہر عالم نے کہا کہ اس کیس کی تفتیش پولیس کو ہی کرنا ہوگی کیوں کہ انکوائری کمیشن وغیرہ کی اس اعتبار سے کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کہ اس پر عدالت میں کیس نہیں چلایا جاسکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ کیس صرف پولیس کے تیار کردہ چالان پر ہی عدالت میں چلتا ہے۔ لہذا بہتر ہے کہ پولیس کو تفتیش کرنے دی جائے تاکہ یہ کیس منطقی انجام تک پہنچے۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔
عمران خان کو کتنی سیکیورٹی دی گئی تھی؟
حملے کے بعد یہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کہ کیا کہیں یہ حملہ سیکیورٹی لیپس تو نہیں تھا؟
رپورٹس کے مطابق لانگ مارچ جس ضلعے کی حدود سے گزر رہا تھا، وہاں کی مقامی پولیس اس کی سیکیورٹی کے ذمے داری تھی جب کہ عمران خان کو بطور سابق وزیرِ اعظم ملنے والی سیکیورٹی بھی اُن کے ساتھ تھی۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے قافلے کے ساتھ اُن کی بلٹ پروف گاڑی بھی چل رہی تھی جب کہ کنٹینر کے دائیں جانب داخلی راستے کے اطراف بھی ایک سیکیورٹی حصار قائم کیا گیا تھا۔
کیا اعجاز چوہدری کو پہلے سے ہی حملے کا پتا تھا؟
تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اعجاز چوہدری کی ایک ٹوئٹ کے بعد بھی کئی سوالات جنم لے رہے ہیں جس میں اُنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اُنہیں عمران خان پر قاتلانہ حملے کا پہلے سے علم تھا اور اُنہوں نے مقامی رہنما احمد چٹھہ کو خبردار بھی کر دیا تھا۔
اس بابت وائس آف امریکہ نے اعجاز چوہدری سے اُن کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا، لیکن اُن سے بات نہیں ہو سکی۔
وکیل انجم کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو یہ سب باتیں کہاں سے پتا چلیں۔ انٹیلی جنس ادارہ اگر کوئی الرٹ جاری کرے تو ان کے پاس باقاعدہ انٹیلی جنس کا نظام ہوتا ہے جس کی بنیاد پر الرٹ جاری کیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ کس طرح ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ان تمام باتوں کی جانچ پڑتال ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس میں مارچ میں لاشیں گرنے کی بات کی۔ اس کے بعد فائرنگ کے واقعے کے روز پی ٹی آئی کے اعجاز چوہدری کا بیان سامنے آیا کہ انہوں نے کل رات ہی احمد چٹھہ کو کہا تھا کہ عمران خان پر وزیرآباد میں حملہ ہونے والا ہے۔
مقامی انتظامیہ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ عمران خان کے قافلے پر جمعرات کو پتھراؤ ہو سکتا ہے اور اسی وجہ سے لانگ مارچ کے روٹ کے اطراف کی چھتوں پر پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
عمران خان کو میڈیکو لیگل کے بغیر فوراً لاہور کیوں منتقل کیا گیا؟
طاہر عالم خان کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں زخمی ہونے والے تمام افراد کے بارے میں سرکاری اسپتال کا سرجن میڈیکو لیگل رپورٹ دے گا جس کے بعد اس کیس کی کارروائی آگے بڑھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا میڈیکو لیگل نہیں ہوا ہے۔ اس لیے شوکت خانم اسپتال میں لیے جانے والے ان کے ایکسرے اور سی ٹی اسکین کی رپورٹ اس کیس میں قابلِ قبول نہیں ہوں گی۔
ان کے بقول، اگر عمران خان بعد میں وزیرآباد کے سرکاری اسپتال میں معائنہ کرائیں تو سرجن کی رپورٹ کیس ریکارڈ میں شامل کی جاسکتی ہے۔
شکیل انجم کہتے ہیں کہ عمران خان کا علاج وزیرآباد میں کروانے کے بجائے انہیں فوری لاہور کیوں منتقل کیا گیا، ان کا میڈیکل ہونا ضروری تھا کہ پتا چلتا کہ انہیں کس گن کی گولی لگی ہے ، لیکن ان کا میڈیکل نہیں ہوا اور اب شوکت خانم کے ایکسرے اور دیگر میٹریل کسی عدالت میں قبول نہیں کیے جائیں گے۔
ملزم کی اعترافی ویڈیوز کیوں جاری کی گئیں؟
واقعے کے فوری بعد پولیس کی تحویل میں نوید نامی ملزم نے عمران خان پر حملے کو انفرادی فعل قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ صرف عمران خان کو مارنا چاہتے تھے۔
سوشل میڈیا پر حملے کے بعد سے یہ سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں کہ آخر ملزم کا اعترافی بیان جاری کرنے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ اور کس کے کہنے پر یہ بیان جاری کیا گیا؟ یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ وزیرِ اعلٰی پنجاب کی جانب سے متعلقہ تھانے کا عملہ معطل کرنے کے باوجود ملزم کی دوبارہ ویڈیوز کیوں جاری کی گئیں؟
ملزم کے اعترافی بیان کے حوالے سے طاہر عالم کا کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر بات کی ذمے داری قبول کررہا ہے اور وہ چاہتا تھا کہ پولیس صرف اس تک محدود رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم کا اس بات پر بار بار اصرار کے یہ صرف اس کا ذاتی فیصلہ تھا اس بات کو ظاہر کرتا ہےکہ وہ کسی اور کو تفتیش کے دائرے میں نہیں لانا چاہتا۔
شکیل انجم کہتے ہیں کہ اس کیس میں بھی بے نظیر بھٹو قتل کیس کی طرح شواہد مٹائے جارہے ہیں۔ ایسی کیا ایمرجنسی تھی کہ واقعے کے چند گھنٹوں کے اندر ملزم کا اعترافی بیان ٹی وی پر آگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم کا بیان دیکھیں کہ پہلے وہ کہہ رہا تھا کہ اذان کے وقت ڈیک لگا ہوتا تھا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔ دوسرے ویڈیو بیان میں وہ کہہ رہا ہے کہ عمران ’پیغمبر‘ ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے جس پر مجھے برا لگا۔
شکیل انجم کہتے ہیں کہ ایک اور بیان میں ملزم کہتا ہے کہ عمران مجھے اچھا نہیں لگتا تھا اس وجہ سے میں انہیں مارنا چاہتا تھا۔ ان کے بقول ملزم کے اتنے زیادہ بیانات سے ظاہر ہورہا ہے کہ کوئی اسے بتا رہا ہے یا پھر وہ کسی کو بچا رہا ہے۔
سابق آئی جی کا کہنا تھا کہ ایسا بیش تر کیسز میں ہوتا ہے جہاں ایک شخص باقی تمام افراد کو بچانے کے لیے تمام الزامات اپنے سر لے لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کے پولیس حراست میں دیے گئے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی چاہے یہ بیان میڈیا پر بھی نشر کیوں نہ ہوجائے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ملزم کا صرف وہ بیان ہوتا ہے جو مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے دیا گیا ہو۔
شکیل انجم کے مطابق اس تمام معاملے میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کا کردار بہت عجیب نظر آرہا ہے۔ ان کی طرف سے ملزم کا اعترافی بیان سامنے آنے پر پورا تھانہ معطل کرنے کے احکامات کے بعد بھی دو مزید ویڈیوز سامنے آئی ہیں، کون یہ ویڈیوز ریلیز کررہا ہے اور اس کا کیا مقصد ہے؟
تحقیقاتی اداروں نے ملزم کے پولی گرافک ٹیسٹ کرانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس کی مدد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملزم اپنے بیان میں غلط بیانی کررہا ہے یا نہیں۔
ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر
واقعے کے بعد تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر اور پنجاب کے سینئر وزیر میاں اسلم اقبال نے کہا کہ عمران خان نے اپنے بیان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف، وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی کے شعبہ کاؤنٹر انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر کو ذمے دار ٹھہرایا ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ ان افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے گی، جو اس خبر کی اشاعت تک درج نہیں کرائی گئی۔
ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر پر طاہر عالم کا کہنا تھا کہ اگر ایسا بغیر کسی وجہ کے ہو تو کیس پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ اس لیے ابتدائی رپورٹ فوری درج ہونی چاہیے۔
پولیس تحقیقات میں اب تک کیا ہوا؟
پولیس تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ واقعے میں ہلاک ہونے والا شخص معظم گوندل فائرنگ کرنے والے ملزم کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسی دوران معظم کے سر میں گولی لگی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو گیا۔
واقعے کے بعد پولیس نے پورے جائے وقوعہ کو سیل کردیا ہے اور کسی کو اس کے قریب جانے کی اجازت نہیں ہے۔
پولیس نے کنٹینر کے ان حصوں کو کاٹ کر تحویل میں لے لیا ہے جہاں سے گولیاں آر پار ہوگئی تھیں۔
کنٹینر کے ان حصوں کا پنجاب فارنزک سائنس لیبارٹری سے تجزیہ کرایا جائے گا۔ تحقیقاتی ٹیم نے کنٹینر کے کچھ مقامات پر سے فنگر پرنٹس اور خون کے نمونے بھی حاصل کر لیے ہیں۔
پولیس نے وقوعے کے ابتدائی شواہد جمع کرلیے ہیں اور مبینہ ملزم کا بیان بھی منظرِ عام پر آگیا ہے تاہم کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔