لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کا اجلاس کوئٹہ میں شروع ہو گیا ہے جو تین جولائی تک صوبے کے مختلف علاقوں سے جبری لاپتا کیے گئے 121 افراد کے کیسز کی سماعت کر ے گا۔
اجلاس کے پہلے روز جبری لاپتا ہونے والا ایک نوجوان پیر کو اپنے گھر واپس پہنچ گیا۔
کمیشن کا گزشتہ اجلاس اپریل میں پانچ روز تک کوئٹہ میں جاری رہا تھا جس میں 71 کیسز کی سماعت ہوئی تھی۔ ان میں سے جبری لاپتا کیے گئے 16 افراد کا پتا لگا لیا گیا تھا اور 12 لاپتا افراد اپنے گھروں میں واپس پہنچ گئے تھے۔
وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز نے پیر سے شروع ہونے والے کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ اجلاس میں شرکت کرنے والے مختلف اداروں کے اہل کار ہماری شکایات پر توجہ نہیں دیتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوجوانوں کو جبری لاپتا کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور حال ہی میں کئی نوجوان لاپتا ہو چکے ہیں۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ لاپتا کیے گئے سینئر افراد اور سیاسی کارکنوں کو چھوڑا جائے۔ اب تک رہا کیے جانے والے افراد وہ ہیں جنہیں تین چار مہینے پہلے اٹھایا گیا تھا۔
انہوں نے شکایت کی کہ اگر ایک سو افراد رہا کیے جاتے ہیں تو تین سو نوجوانوں کو لاپتا بھی کر دیا جاتا ہے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ جبری لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ایک متفقہ فہرست سامنے لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اس مسئلے پر کام کر رہی ہے۔ کمیشن بھی اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔ حکومت کی بھی اس پر نظر ہے۔ کچھ لاپتا لوگ واپس آ چکے ہیں اور اب یہ مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے۔
جبری لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے وفاقی حکومت نے 2009 میں سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمشن کے اب تک 19 اجلاس ہو چکے ہیں۔
بلوچستان کی وزارت داخلہ کے مطابق کمیشن کے پاس جبری لاپتا افراد کے 435 کیسز درج کرائے گئے تھے جن میں سے 178 افراد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کی کوششوں سے ساڑھے تین سو سے زیادہ افراد واپس آ گئے ہیں۔