مبینہ بلوچ شدت پسندوں کی طرف سے دھمکی آمیز خطوط ملنے پر پچھلے دو ہفتوں کے دوران صوبائی دارالحکومت میں تین ہا ئی اسکول بند کیے جا چکے ہیں۔ تازہ ترین دھمکی آمیز خط پیر کو کوئٹہ میں لڑکوں کے لیے گورنمٹ ہائی سکول کلے اسماعیل کوموصول ہو ا ہے جس کے بعد اس درسگاہ کو تاحکم ثانی بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اسکول انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں صوبائی حکومت اور شہری انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ اساتذہ کو تحفظ فراہم کیا جائے کیوں کہ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر صوبے سے تعلیمی پسماند گی ختم کر نے کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس سے قبل ہدہ کے علاقے میں جامعہ اور وحدت کالونی کے ہائی اسکولوں کو دھمکی آمیز خطوط ملنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے اطلاعات کے مطابق دھمکی آمیز خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ گمنام افراد کی جانب سے اسکولوں کو بھیجے گئے ایک خط میں تمام غیر بلوچ اساتذہ اور طلبا کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر وہ سکول چھوڑ کر نہ گئے توانھیں قتل کر دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے کے حالیہ واقعات اور دوسرے صوبوں سے درس و تدریس اور دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دینے والے افراد کو ہدف بنا کر ہلاک کرنے کے واقعات نے لوگو ں کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ ان حالات میں صوبے کے دور دراز علاقوں میں ا سکول تو کھلے ہیں لیکن اساتذہ اور طالب علموں کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔
صوبائی سیکر ٹری برائے تعلیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کر تے ہوئے کہا ہے کہ سکو لو ں کی بندش کا معاملہ حکومت کے نو ٹس میں ہے اور ان درس گاہوں کوحکومت تحفظ فراہم کر نے کے لیے اقدامات کر رہے ہی ہے ۔ لیکن اُنھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ بلوچستان میں ہر استاد کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں۔ بلوچستان میں12 ہزار سے زائد سرکاری سکولوں میں لگ بھگ دس لاکھ طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں لیکن صوبے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات خصوصاََ ہدف بنا کر اساتذہ کو قتل کرنے کی وارداتوں کے باعث ان طالب علموں کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہوتا جارہاہے۔