بلوچستان کے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں دو تازہ واقعات میں ایک خاتون اور دو بچوں سمیت سات افراد ہلاک اور پانچ پولیس کے انسداد دہشت گردی فورس کے پانچ جوان زخمی ہوگئے۔
ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس عبدالرزاق چیمہ نے دونوں واقعات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’’منگل اور بدھ کی شب کو پولیس نے ایک مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار کر لیا جس کی نشاندہی پر بدھ کو علی الصبح ضلع کوئٹہ کے علاقے دشت، تیرا میل، نامی کلی میں آپریشن کے دوران ایک مکان کو گھیرے میں لے لیا گیا، جس پر مکان میں موجود دہشت گردوں نے پولیس پر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی‘‘۔
پولیس اور مسلح ملزمان کے درمیان کا فائرنگ کا تبادلہ لگ بھگ چار گھنٹے تک جاری رہا۔
اس دوران، فائرنگ کے تبادلے میں مکان میں موجود دو دہشت گرد جوابی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے، جبکہ اس مکان کی نشاندہی کےلئے پولیس کے ساتھ جانے والا دہشت گردوں کا ساتھی ان کی فائرنگ سے مارا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران مکان میں موجود ایک خودکش حملہ آور نے خود کو اپنے جسم کے ساتھ باندھے گئے۔ بارودی مواد میں دھماکہ کرکے اُڑا دیا۔ اس دوران ایک دہشت گردوں کی ساتھی ایک خاتون اور اُس کے ساتھ ایک دہشت گرد نے فرار ہونے کی کوشش کی جن کو پولیس نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔
خودکش دھماکے میں ایک راہ گیر بچہ ہلاک اور ایک خاتون زخمی ہوگئیں۔ دہشت گردوں کی فائرنگ سے پولیس کے انسداد دہشت گردی فورس کے پانچ اہلکار زخمی ہوگئے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا۔ پولیس نے مکان سے بھاری تعداد میں اسلحہ گولہ بارود برآمد کر نے کا دعویٰ کیا ہے۔
عبدالرزاق چیمہ نے مزید کہا کہ ’’دہشت گردوں کا ٹولہ کبھی سندھ اور کبھی پنجاب سے مل جاتا ہے۔ یہ عناصر ایک دوسرے کو سہولت فراہم کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اُن کا رابطہ افغانستان سے ہونے کے شواہد مل جاتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو بچانے کےلئے جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’’پولیس نے بھی حکمت عملی تبدیلی کرلی ہے اور ہم بھی اب دوسروں صوبوں کی پولیس سے اس حوالے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں‘‘۔ تاہم، بقول اُن کے، افغان سرحد پر کشیدہ صورتحال کے باعث بعض مشکلات ضرور پیش آتی ہیں۔
ڈی آئی جی نے مزید کہا کہ بدھ کو ہی کوئٹہ شہر کے دوسرے علاقے نواں کلی میں نامعلوم مسلح افراد نے پولیس کے تحقیقاتی ادارے (انوسٹی گیشن) کے سب انسپکٹر عبدالصمد اپنے چچا وزیر محمد اور بیٹے کے ہمراہ گھر سے گاڑی میں شہر کی طرف آ رہے تھے کہ نواں کلی میں نامعلوم مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کرکے گاڑی میں سوار تینوں افراد کو شدید زخمی کر دیا اور فرار ہوگئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں چچا اور بیٹا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ تاہم، پولیس سب انسپکٹر کی حالت تسلی بخش بتائی جاتی ہے۔
ڈی آئی جی نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیا اور کہا ہے کہ یہ واقعہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں ہونے والی پولیس اور دیگر اداروں کی کاروائیوں کا رد عمل ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس واقعے کی مزید تحقیقات کی جا رہی ہے۔ دوسرے واقعہ کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ یا تنظیم کی طرف سے قبول نہیں کی گئی۔
بلوچستان میں ایک بڑے عرصے سے پولیس، فرنٹیر کور اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنے اور ان پر خودکش حملے ہوتے رہے ہیں، جس میں اب تک پولیس کے لگ بھگ ایک درجن اعلیٰ افسران اور درجنوں اہلکار جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ مئی میں دو پولیس اہلکار، اپریل کے دوران چھ پولیس اہلکاران ایک خودکش حملے میں اور مارچ میں پولیس کے پی ڈی ایس پی کی گاڑی پر حملے میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔