برطانیہ میں تنخواہوں میں اضافے اور برطرفیوں کے خلاف لگ بھگ 40 ہزار ریلوے ورکرز نے ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے جس سے ملک میں ایک نئے بحران کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ماہرین اسے برطانوی ریلوے کی 30 برس میں سب سے بڑی ہڑتال قرار دے رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ریلوے یونینز نے اعلان کیا ہے کہ منگل، جمعرات اور ہفتے کے روز کام چھوڑ ہڑتال کی جائے گی جس میں 40 ہزار ریلوے ورکرز مطالبات کے حق میں احتجاج کریں گے۔
ہڑتال کے پیشِ نظر برطانیہ کی سڑکوں پر ٹریفک جام کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں جب کہ ہڑتال کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوں گے۔
'رائٹرز' کے مطابق ہڑتال کی وجہ سے دارالحکومت لندن میں انڈر گراؤنڈ میٹرو ٹرین نیٹ ورک بھی جزوی طور پر بند رہے گا جب کہ ہوائی اڈوں پر بھی اسٹاف کی کمی کی وجہ سے لمبی قطاریں دکھائی دے رہی ہیں اور پاسپورٹ دفاتر میں عملے کی کمی کی وجہ سے شہریوں کو پاسپورٹ کے حصول میں بھی تاخیر کا سامنا ہے۔
برطانیہ میں اس نوعیت کی ہڑتال کو 'انڈسٹریل ایکشن' کہا جاتا ہے جس میں ورکرز اپنے مطالبات منوانے کے لیے جزوی یا مکمل طور پر کام چھوڑ کر ہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔
یہ ہڑتال ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے برطانوی معیشت دباؤ کا شکار ہے اور وزیرِ اعظم بورس جانسن پر مؤثر اقدامات کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے ہی کئی لاکھ کم آمدنی والے گھرانوں کی مالی معاونت کر رہی ہے، لہذٰا ایسے میں مہنگائی کی شرح سے بھی زیادہ تنخواہوں میں اضافہ معاشیات کے بنیادی اُصول کی نفی ہو گا۔
وزیرِ اعظم جانسن نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر ملک میں اسی طرح 'انڈسٹریل ایکشن' کا سلسلہ شروع ہو گیا تو کرونا وبا کے اثر سے نکلنے کی کوششوں کو دھچکہ لگے گا۔
ورکرز یونینز نے دعویٰ کیا ہے کہ ریلوے ورکرز کا احتجاج نکتۂ آغاز ہو گا جس کے بعد اساتذہ، طبی عملہ، وکلا، ویسٹ مینجمنٹ کا عملہ اور دیگر شعبے بھی ہڑتال پر جا سکتے ہیں جو برطانیہ میں مہنگائی کے اثرات سے متاثر ہیں۔
برطانیہ میں پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جب کہ افراطِ زر کی شرح 10 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔
ریل، ٹرانسپورٹ اور میری ٹائم یونین (آر ایم ٹی) کے سیکریٹری جنرل مک لنچ نے پیر کو ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ اُن کی ہڑتال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس کی ضرورت رہے گی۔
وزیرِ اعظم بورس جانسن کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ یونین کی ہڑتال کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، حالاں کہ یونینز کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ہڑتال پر جانے سے یونینز اُن شہریوں کو نقصان پہنچائیں گی جو ان ریل ورکرز کی ملازمتوں کا تحفظ کرتے ہیں۔اُن کے بقول اس ہڑتال سے ملک بھر میں مختلف کاروباروں اور کمیونیٹز کو نقصان پہنچے گا۔ وزیرِ اعظم کے دفتر کا کہنا تھا کہ وہ ان خدشات سے منگل کو کابینہ کو بھی آگاہ کریں گے۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں اپوزیشن جماعتیں حکومت پر تنقید کر رہی ہیں کہ وہ ریلوے ورکرز کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام رہی ہے۔ ریلوے ورکرز کی ہڑتال ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب کرونا وبا کی وجہ سے سپلائی چین میں تعطل، لیبر کی کمی، مہنگائی اور بریگزٹ کے اثرات کی وجہ سے کساد بازاری کے خدشات نمایاں ہیں۔
برطانیہ میں ورکرز یونینز کی اس ہڑتال کا موازنہ ستر کی دہائی سے کیا جا رہا ہے جب کہ برطانیہ میں سروسز فراہم کرنے والے ورکرز نے موسمِ سرما میں ہڑتال کی تھی جس کی وجہ سے نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔
برطانوی وزیرِ ٹرانسپورٹ گرانٹ شیپس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ایسا قانون متعارف کرائیں گے جس میں ہڑتال کے باوجود محدود آپریشنز جاری رکھنا یقینی بنایا جاسکے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے 'اسکائی نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ اس طرح کی ہڑتالوں کا عام آدمی پر کم سے کم اثر پڑے۔"
اس خبر میں شامل بعض مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔