پاکستان کے صوبے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مزدوروں پر فائرنگ اور اغوا کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جن میں دو مزدور ہلاک اور آٹھ اغوا ہوچکے ہیں۔ اغوا ہونے والے مزدوروں کو کئی روز گزرنے کے بعد بھی بازیاب نہیں کرایا جاسکا ہے۔
بلوچستان کے ضلع کیچ میں پیر کی صبح سڑک کی تعمیر میں مصروف مزدوروں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی جس سے دو مزدور ہلاک ہوگئے ہیں۔
لیویز ذرائع نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ فائرنگ کیچ کے علاقے ہوشاپ میں ہوئی ہے۔ حملے میں دو افراد کی ہلاکت کے علاوہ ایک شخص کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ہلاک ہونے والے مزدوروں کا تعلق میرپور خاص اور نوشہرو فیروز کے علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔
اس بارے میں مزید معلومات کے لیے وائس آف امریکہ کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کیچ سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ قائم نہیں ہوسکا۔
ہرنائی میں مزدور اغوا
بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں جمعے کی شب تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی۔ لیویز حکام کے مطابق فائرنگ سے دو مزدور زخمی ہوئے۔
فائرنگ کے بعد نامعلوم مسلح افراد نے پانچ مزدوروں کو اغوا کیا جن میں سے ایک کو چھوڑ دیا گیا لیکن باقی چار مزدور تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
ضلع ہرنائی میں ہی ایک تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر ایک بار پھر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی۔ یہ واقعہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب تین بجے پیش آیا جب 12 مزدور کیمپ میں سو رہے تھے۔
ڈپٹی کمشنر ہرنائی محمد رفیق ترین کے مطابق ہرنائی میں زرد آلو کے مقام پر تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی۔ واقعے میں دو مزدور زخمی ہوئے جن میں سے ایک کی حالت تشویش ناک ہے۔
ملازمین کے مطابق حملہ آوروں نے فائرنگ کے بعد ٹریکٹر اور کرش مشین کو بھی آگ لگا دی اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
ترجمان بلوچستان حکومت فرح عظیم شاہ نے ہرنائی میں مزدوروں کے کیمپ پر مسلح افراد کے حملے کی مذمت کی ہے۔
ترجمان بلوچستان حکومت کے مطابق واقعے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن شروع کیا ہے جس میں فوجی اہل کاروں کے ہمراہ لیویز فورس کے اہل کار بھی شامل ہیں۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ زخمیوں کے علاج کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
ادھر بلوچستان کے مشیرِ داخلہ ضیاءاللہ لانگو نے سیکیورٹی حکام سے ہرنائی میں مزدوروں پر فائرنگ کے واقعات کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
کوئٹہ سے اغوا ہونے والے مزدور بھی تاحال لاپتا
دوسری جانب کوئٹہ کے نواحی علاقے سورینج سے سات روز قبل اغوا ہونے والے کوئلہ کان کے چار ملازمین بھی تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ مقامی پولیس نے ملازمین کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جب کہ ملزمان کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گزشتہ منگل کو 20 سے 25 مسلح افراد کوئلہ کان کے مینیجر شیر بہادر کے گھر میں داخل ہوئے اور مینیجر سمیت چار افراد کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
مسلح افراد کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شیر بہادر، وقاص اور نہر کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب جب کہ ایک ملازم مہران کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے مردان سے بتایا جا رہا ہے۔ یہ چاروں حبیب اللہ کول مائن کمپنی میں ملازم تھے۔
پولیس کے مطابق ملازمین میں دو مائننگ انجینئر بھی شامل ہیں۔
سورینج، ہرنائی اور کیچ میں پیش آنے والے واقعات کی ذمّے داری تاحال کسی گروہ یا تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے ملازمین کی ہلاکتوں اور اغوا کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال جنوری میں مچھ میں فائرنگ سے 11 کان کن ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ ان کان کنوں کا تعلق بلوچستان میں بسنے والی ہزارہ برادری سے تھا۔
اس سے قبل سال 2013 میں بھی بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک نجی کان سے آٹھ کان کنوں کو اغوا کیا تھا جن کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا۔
ملازمین میں خوف، ہرنائی روڈ پر تعمیراتی کام بند
سیکیورٹی خدشات کے باعث ہرنائی سے کوئٹہ اور ہرنائی سے سنجاوی جانے والی سڑک پر جاری تعمیراتی کام ٹھیکے دار نے غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا ہے۔
ہرنائی روڈ پر کام کرنے والی کمپنی نے پیر کو کام بند کرتے ہوئے مشینری منتقل کرنا شروع کردی ہے۔ کمپنی انتظامیہ کا کہنا ہے انہیں ایک کالعدم تنظیم نے 24 گھنٹوں کے اندر تعمیراتی کام بند کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔ تاہم انتظامیہ نے کالعدم تنظیم کا نام ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔
یاد رہے کہ ہرنائی سے کوئٹہ اور ہرنائی سے سنجاوی جانے والی سڑک کی تعمیر کے تقریبآ آٹھ ارب روپے کے منصوبے پر کام جاری تھا جو اب بند ہوگیا ہے۔ مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تعمیراتی کمپنی کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کریں تا کہ سڑک کی تعمیر مکمل ہوسکے۔